Home » Book & Literature Review » ہوشربا از انوار علیگی

ہوشربا از انوار علیگی

تبصرۂ کتب

ہوشربا از انوار علیگی

فہمیدہ فرید خان کا تبصرہ

Follow
User Rating: 4.16 ( 1 votes)

ہوشربا از انوار علیگی

شاید پرسوں سے ایک دو دن پہلے کی بات ہے۔ غزال الدین عرف لالو جی نے کہا، فہمی مجھ سے ہوشربا ڈاؤنلوڈ نہیں ہو رہا۔ ذرا تم کر دو۔ لو جی ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ بے خطر بحرِ گوگل میں کود پڑے اور گوہرِ مقصود نکال کر دم لیا۔ اب ہوا یوں کہ غزال الدین صاحبہ کو واٹس ایپ کرنے کے بعد مابدولت کا اپنا جی للچا گیا۔ مگر مصروفیات آڑے آ گئیں اور یہ ناول یونہی فولڈر میں پڑا رہ گیا۔

کل دن کو نزہت کی بھیجی گئی کتاب پڑھنے کے لیے اٹھائی لیکن سر پر وہی ناول سوار رہا۔ سو کتاب بند کر کے لیپ ٹاپ پر رکھ کر سو گئی۔ چونکہ رات کو دیر سے نیند آئی تھی اور اب سر بھاری ہو رہا تھا۔

خیر جی! شام کو جاگی تو بھاری پن غائب تھا۔ شام کی چائے پی کر ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کے بعد قریب چھ بجے ہوشربا نکال کر پڑھنا شروع کر دیا اور ساڑھے آٹھ تک ختم شد۔ اس بیچ رات کے کھانے کا وقفہ بھی شامل ہے۔

۔

میں نے ایک طویل عرصے بعد سسپنس پڑھا۔ انوار علیگی کو شاید پہلی بار، نہیں بلکہ مجھے یاد آ گیا کہ بچپن میں اخبار جہاں کی وجہ سے ان سے شناسائی تھی۔ اس سے پہلے میں عمران سیریز کی دیوانی ہوا کرتی تھی۔ تاہم جب اخبارِ جہاں پڑھنا شروع کیا تو کہانیاں ازبر ہونے لگیں۔ خاص طور پر میں ایم اے راحت کی بہت بڑی مداح رہی ہوں۔ پھر بیچ میں ایک لمبا وقفہ آیا اور اب جا کے دوبارہ سسپنس پڑھا۔

ہوشربا کی کہانی شروع ہوئی تانیہ کے خوابوں سے اور جا کر رکی ایک اجنبی سر زمین پر۔ پڑھتے کے دوران کچھ واقعات کی مسلسل تکرار نے بدمزہ کیا۔ ان کا ذرا الگ الگ تجزیہ کرتی ہوں۔

دادا اعظم: پہلے تو یہ سمجھ نہیں آئی کہ دادا اعظم کو آخر کیا سوجھی تھی۔ وہ اس لڑکی کی مدد پر کمربستہ ہو گئے جس سے وہ صرف ایک بار ملے تھے۔ وہ تانیہ کو خواب میں آ کر پوری پوری بات بتاتے تھے۔ حتٰی کہ بغیر دیکھے گھر کا نقشہ تک بنا کے دے دیا۔ ناول کے آخر میں بھی انہوں بذاتِ خود آ کر مدد کی۔ حق ہا ایک ہم ہیں گھر والے مبہم سی بات بتا کے بعد میں کہتے ہیں، پتہ نہیں یہ کہاں سوئی رہتی ہے۔ یہ سطریں لکھتے ہوئے مجھے ڈر محسوس ہو رہا ہے۔ اپنی برائیاں پڑھ کے دادا اعظم طیش میں آ کر کہیں مجھ پر کوئی طلسم نہ پھونک دیں۔

۔

تانیہ: یہ صاحبہ بھی خاصے کی چیز تھیں۔ پہلے خواب میں ان کو ہر چیز واضح نظر آئی۔ پھر کمرے والے بابو راکل نے ڈائری لکھ لکھ کے سب کچھ بتایا۔ مزید برآں تانیہ کو تاکید کی گئی تھی کہ کسی کو مت بتانا۔ مگر اس نے چھوٹتے ہی جا خالہ کو بتایا۔ اب اتنا بھی پیٹ ک نہ ہو بندہ۔ اس کردار میں اتفاقات کی بھرمار تھی۔ دادا اعظم اور کالا چراغ تو تھے ہی، چاہ وفات میں بھی کنویں کی مخلوق مدد کو پہنچ گئی۔ پھر اس کے بعد اشگن چاچا۔ ہمارے ہاں لڑکی کچھ دیر غائب رہے تو بھونچال آ جاتا ہے، تانیہ بی بی کی واپسی پہ کوئی خاص ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آیا۔ مجھے تو بے چارے راشمون پر رہ رہ کر ترس آتا رہا۔ آپ پوچھیں گے کیوں؟ تو ہوشربا ناول خود پڑھ کر دیکھیں آہو۔

محسن راؤ: اس بندے پر مجھے شروع سے لے کر آخر تک غصہ آتا رہا۔ ایک تو وہ جی بھر کر بے وقوف تھا۔ اوپر سے ہر ایک کی باتوں میں فوراً آ جاتا تھا۔ چاہے وہ راج مداری ہو کہ بقاں یا راکل ہی۔ ہماری جب کسی سے نہ بنتی ہو، اس کی بات پہ یقین کرنا تو کجا ہم اس کے بارے میں آخر تک مشکوک رہتے ہیں۔ مزے کی بات مجھے یوں لگ رہا تھا وہ دیواہ کالی کی قید میں ہو گا مگر وہ تو بقاں نکلی۔

۔

کالا چراغ: کیا کردار تھا یہ بھی۔ اس نے بقاں کی خاطر کیا کیا نہ کیا پھر بھی بجھے چراغ کی مانند بدنصیب رہا۔ تانیہ کی خاطر وہ آخر تک سرگرمِ عمل رہا۔ آخر اس کے چچا کے خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹا کر دم لیا۔

راکل: کیا دماغ پایا تھا اس الو نے۔ شاطر تھا اور آخر تک شاطر ہی رہا۔ حتٰی کہ مرتے مرتے بھی شیطانی کر گیا جب بالآخر دیواہ کالی کے ہاتھوں رقیق ہوا۔

آخر میں سب برے لوگوں کو جہان فانی سے کوچ کروا دیا گیا۔ میں حیرت سے سوچ رہی تھی کہ سب کا ایک ساتھ مرنا ضروری تھا کیا؟

ہوشربا کی کہانی سے طلسمی واقعات نکال دیئے جائیں تو ایک ملغوبہ سا بچے گا، جس میں اتفاقات کی بھرمار ہے۔

اگلے تبصرے تک یہی کہہ سکتی ہوں کہ مجھے گیا وقت نہ سمجھنا، میں پھر آؤں گی۔

فہمیدہ فرید خان

اکتوبر ۳۱، ۲۰۱۷

آپ گزشتہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں ناناں

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

2 comments

  1. Hello Fehmeeda!

    I read the novel in my childhood, now want to read it again. Could you please share it with me?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *