کوئی رنگ بھری سحر اترے – عالیہ بخاری – تبصرہ

ناول: کوئی رنگ بھری سحر اترے

مصنفہ: عالیہ بخاری

تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان

ماہنامہ خواتین ڈائجسٹ

اشاعت: اپریل ۲۰۰۳ء

اس بار آبان کے بجائے حصار نے بولا، ”فہمی باجی اب کوئی رنگ بھری سحر اترے پڑھنے پر کمر کسیے۔“ مگر میں کمر کیسے کستی کہ یہ کہانی مجھے عین بین یاد تھی۔ عالیہ بخاری کی تحریر ہو اور نظروں سے چوک جائے، نہ جی نہ۔

عالیہ بخاری کی کہانیوں میں منظر نگاری غضب کی ہوتی ہے۔ ”کوئی رنگ بھری سحر اترے“ کی صوما آپا کو ہی لیجئے۔ بے انتہاء تھڑدلی اور تسلط پسند خاتون ہیں محترمہ۔۔۔ اس پہ طرہ ہر ایک کو اپنے حساب سے چلانا چاہتی ہیں۔۔۔ میکے اور سسرال پر یکساں حاوی ہیں۔ کیا شوہر، کیا بھائی، کیا نند کیا بھابھی، کیا پھپھو (ساس) اور کیا ماں۔ اور آگے سوتن بھی۔۔۔

~

ہارون الرشید کا کردار سلجھے ہوئے دھیمے مزاج کے آدمی کا ہے۔ انہوں نے دس سال صوما آپا کے ساتھ گزار لیے۔۔۔ حبیبہ مہربان تایا کی سرپرستی کے باوجود تائی کے زیرِ عتاب تھی۔۔۔ سیف صوما آپا کا بھائی ہونے کے باوجود پس گیا اور نگین کو ہارون الرشید کی بہن ہونے کے ناطے سزا ملی۔۔۔ سیما ایک اچھی بھابھی تھی تو رضا اچھا بھائی۔۔۔ ضوفی کی سچ بیانی عادت بھئی واہ۔۔۔ اماں کا کردار سادہ ہونے کے باوجود صوما آپا کے زیر اثر رہا۔۔۔ کوئی رنگ بھری سحر اترے کا ہر کردار ہی نرالا یے۔

کوئی رنگ بھری سحر اترے کا اختتام کیا ہوا؟؟

کیا صوما آپا توبہ تائب ہو گئیں؟؟

ہارون الرشید کو صبر کا کیا صلہ ملا؟؟

کیا حبیبہ کی قسمت مہربان ہوئی؟؟

حبیںہ اور ہارون الرشید کا آپس میں کیا تعلق تھا؟؟

سیف اور نگین کی نیا پار لگی؟؟

ان سب سوالوں کے جوابات جاننے کے لیے آپ کو پڑھنا پڑے گا ”کوئی رنگ بھری سحر اترے“۔۔۔ سادہ اسلوب میں لکھا گیا ایک خوبصورت ناول۔۔۔

اپریل ۱۸, ۲۰۲۱ء

گزشتہ تبصرہ چونچ مارتے کوے

Leave a Comment