Home » Book & Literature Review » ناناں – ایک ظالم اور بے رحم عورت کی داستان

ناناں – ایک ظالم اور بے رحم عورت کی داستان

ناناں

تبصرۂ کتب

ناناں از ایمائل زولا

مریم مجید ڈار کا تجزیہ

Follow
User Rating: 3.18 ( 1 votes)

ناناں فرانسیسی مصنف ایمائل زولا کا ناول ہے۔ اس کا ابتدائی تعارف زولا کے پہلے ناول میں ملتا ہے۔

Rougon-Macquart Series, L’Assommoir

اس ناول میں ناناں کو ایک متشدد شرابی کی بیٹی کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ناول میں ہم ناناں کو گلیوں میں پلنے والی آوارہ بچی سے ایک خوب صورت طوائف کے روپ میں ڈھلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ اس کا مقصد محض گلیوں، سستے شراب خانوں اور قبحہ خانوں میں کام کر کے اپنا پیٹ پالنا نہیں ہے۔ بلکہ اس کے سامنے خواہشات کے لاتعداد ستارے جگمگا رہے ہیں۔

۔

Théâtre des Variétés

آخر کار ایک شب وہ مذکورہ بالا جگہ میں ایک پرفارمنس سے اپنے کام کی ابتدا کرتی ہے۔ اس کی بے مثل خوبصورتی اور لاجواب فنکارانہ صیلاحیتیں اسے راتوں رات ایک سیارے سے دوسرے پر لے جاتی ہیں۔ اگرچہ اسٹیج پر یہ اس کی پہلی پرفارمنس تھی مگر پورا پیرس اس کے گن گانے لگتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور ٹیلنٹ کے متعلق کچھ کہے۔ تھیٹر کا مینجر بورڈینیو فوراً جواب دیتا ہے کہ ایک فنکار کو یہ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ گایا یا رقص کیسے کیا جائے۔

ناناں نے اپنی فطرت اسی اسٹیج پر تیسرا ایکٹ کرتے ہوئے ہی دریافت کر لی تھی۔ وہ ایک خوب صورت لڑکی سے ایک چالاک، شکاری، بے رحم اور خطرناک عورت میں ڈھل گئی۔ اپنی خوب صورت اداؤں سے مکمل آگاہی رکھنے والی ناناں نے پیرس کے مردوں کی تباہی کا آغاز کر دیا۔ اس نے اجنبی خواہشات کی وحشی دنیا کی جانب کھلنے والے سب دروازے کھول دیئے۔

وہ اب بھی مسکرا رہی تھی مگر یہ مسکراہٹ ایک سفاک آدم خور کی تھی۔ یہ ناول ہر اس شخص کی تباہی اور بربادی کی داستان سناتا ہے جس نے بھی ناناں سے تعلق بنایا۔ ناناں نے پہلے تو اسے تاش کی گڈی کی مانند پھینٹا اور پھر پاؤں کی ٹھوکر سے اڑا دیا۔

مثلاً فلپ ہیوگن نے ناناں کو ادھار دینے کے لیے فوج سے رقم چرائی اور آخر کار جیل میں سڑنے کو جا پڑا۔ ایک امیر بینکار سٹینر اسے خوش کرتے کرتے خود کو نادہندہ کروا بیٹھا۔ نوکری سے فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی جائیداد وغیر بھی قرقی ہو کر رہی۔ جارج ہیوگن نے اس کی توجہ پانے کی خاطر خود میں قینچی گھونپ لی تھی۔

۔

صحافی اور پبلشر فاوچری اس کی خاطر برباد ہوا۔ کاؤنٹ موفاٹ جس کی وفا اور محبت بار بار اسے ناناں کے در پہ لاتہ رہی۔ وہ حقیر کتے کی طرح لات مار کر پرے پھینکا جاتا رہا۔ پیرس کے مردوں پر ناناں کے ظلم بڑھتے گئے۔ وہ قہر کی مانند ان پر چھاتی گئی۔ اس کی اصل حقیقت اور حسن نے مل کر اسے ایک عذاب کی شکل عطا کر دی تھی۔

پیرس میں مردوں کا صفایا کرنے کے بعد وہ کہیں غائب ہو گئی۔ کئی برس تک اس سے متعلق کسی کو خبر نہ ملی۔ اس کی چیزیں نیلام کر دی گئیں۔ پیرس اس کے حسن اور قہر سے آزاد ہو گیا۔ زولا نے جانے کس حس کو تسکین پہنچانے اور شاید مردوں پر ہوئے مظالم کا بدلہ لینے کے لیے ناناں کو ایک انتہائی خوفناک انجام سے دو چار کیا ہے۔ وہ دراصل ایک روسی شہزادے کے ساتھ چلی گئی تھی۔ وہ اپنا نومولود بیٹا اپنی ایک رشتہ دار کے پاس چھوڑ گئی تھی جو پیرس کے قریب رہتی تھی۔

۔

جب چیچک کی وباء پھیلی تو وہ ظالم اور قہار عورت اپنے بیٹے کی دیکھ بھال کے لیے پیرس واپس آ گئی۔ لیکن اس کا بیٹا نہ بچ سکا۔ اس وباء نے ناناں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس کے آخری ایام کی مکروہ عکاسی رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔ وہ مشہور زمانہ طوائف جو پیرس کے ہر مرد کا خواب تھی، کسمپرسی کے عالم میں بستر مرگ پر اکیلی پڑی تھی۔

زولا اس کے آخری لمحات کو یوں بیان کرتا ہے۔ ”تکیے پر ایک مردہ گھر کی لاش پڑی تھی۔ سڑتے ہوئے خون اور پیپ کا ایک مختصر ڈھیر! غلیظ گوشت کا چیتھڑا!! اس کا سارا چہرہ پیپ کے دانوں سے پوری طرح چھپ چکا تھا۔ کوئی ایک پھوٹتا تو اس سے جڑا دوسرا بھی بہنے لگتا۔ اس کی کھڑکی کے باہر ہجوم نعرے لگاتا اور شور مچاتا گزر رہا تھا۔ جو کہہ رہا تھا، برلن چلو، برلن چلو“۔ زولا نے ناناں کی اس مکروہ موت کو اس کے باطن کے بھیانک پن سے تعبیر کیا۔ جسے اس کی خوب صورتی نے چھپا رکھا تھا۔ یوں ہزاروں مردوں کو برباد کرنے والی چنچل ناناں چیچک کی وباء سے لقمۂ اجل بن گئی۔

تبصرہ نگار: مریم مجید ڈار

Previous review by Sidra Javed, Obama’s Wars

About Marium Majeed Dar

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *