Home » Movie, Drama and Series Reviews » کابلی پلاؤ: ناظرین میں کیوں مقبول رہا؟ ابیہا علی کا تجزیہ

کابلی پلاؤ: ناظرین میں کیوں مقبول رہا؟ ابیہا علی کا تجزیہ

ڈرامہ

کابلی پلاؤ

کئی تصورات غلط ثابت کرنے والا مقبول ڈرامہ

Follow
User Rating: 4.57 ( 6 votes)

کابلی پلاؤ کا اختتام۔۔۔

اففففف دکھ بھی ہے کہ اتنا پسندیدہ ڈرامہ ایک ہی تھا جو دیکھتی تھی وہ ختم ہو گیا۔ اس ڈرامے کی بات کروں تو اس ڈرامے نے کئی خواہ مخواہ کے بنائے ہوئے ان تصورات کو ختم کیا جو اچھی کہانی لکھنے کی مانگ کے بعد ہمارے ذہن میں ڈالے جاتے ہیں۔

ہیرو صرف پینٹ شرٹ/جیل لگے بالوں والا بالکل نوجوان ہوتا ہے۔

ہیروئین سوتے جاگتے کھاتے پیتے روتے فل میک اپ۔ نقلی پلکوں اور نقلی بالوں کے بنا ہو ہی نہیں سکتی۔

ساس نندوں کی سازشوں والے ڈرامے عوام پسند کرتی ہے اور ریٹنگ بھی اسی کہانی کی آتی ہے۔

سارے ہیرو اور ہیروئین یا ان کے گھر والوں کا سب سے بڑا مسئلہ شادی یے۔

۔

کابلی پلاؤ نے سب تصورات کی ایسی کی تیسی پھیر دی کہ مصنوعی ماحول اور بارہا دہرائے گئے گھسے پٹے موضوعات ضروری ہیں۔ اس ڈرامہ نے یہ ثبوت بھی دے دیا کہ مرکزی کردار میں مشہور ہیرو ہیروئین ہونا لازمی نہیں۔ کوئی بھی بہترین ڈائریکٹر جسے اداکاروں سے معیاری کام لینا آتا ہو، ایک اچھی کہانی کو اٹھا کر کہاں سے کہاں لے جاتا ہے۔

باربینہ کا کردار سبینہ فاروق نے ادا کیا۔ اس سے پہلے وہ تیرے بِن میں کردار کی وجہ سے لعن طعن کا شکار رہیں۔ لیکن اس ڈرامے میں مکالمے سے کم اور آنکھوں کے جاندار تاثرات دے کر سبینہ نے خود کو منجھی ہوئی اداکاراؤں کی صف میں شامل کر لیا ہے۔

آخری قسط میں حاجرہ اسے مشورہ دیتی ہے، ”تم باران کے ساتھ چلی جاؤ۔ وہ تمہارا ہم عمر ہے۔ ہم زبان اور ہم علاقہ ہے“۔ تب باربینہ کہتی ہے، ”میں اس کا ہاتھ تھام کے نیئں آیا۔حاجی صیب کا پیر پکڑ کے آیا ہوں اور ان کے قدموں میں ہی زندگی گزار دے گی۔ یہ ایک با کردار اور با وفا بیوی ہونے کا اعلان کرتا کردار تھا۔

۔

باران اور حاجی صاحب کے مکالمے بھی خوب رہے۔ حاجی صاحب باران سے پوچھتے ہیں کہ تم کیوں یہاں آئے تھے؟ حاجی صاحب کے آنسو اور غضب کے تاثرات افففف۔۔۔ تمہارا حوالہ اتنا معتبر ہے باران کہ تمہارے ساارے قصور معاف۔

شمو وہ واحد کردار تھا جس پر پورے ڈرامے میں مجھے بے حد غصہ آتا رہا۔ اس قدر ذلیل شوہر کو چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ ساتھ پورا خاندان ذلیل کروا رہی ہے۔۔۔ آخری قسط میں ٹھنڈ ڈال دی اس کے تھپڑ اور اس مکالموں نے۔ جب عبدالغفار نے اسے دو طلاقیں دے کر کہا، ”تیسری بھی دے دی تو کوئی تمہارے منہ پہ تھوکے گا بھی نہیں۔“ شمو نے اسے تھپڑ مار کر کہا، ”میرے بس میں ہوتا تو یہ تیسری طلاق میں تمہارے منہ پہ مارتی۔

پورے ڈرامہ میں شوہر کے ساتھ ہر حال میں نباہ کی تمام تر کوشش کرںلینے کے بعد آخر میں شمو نے اپنا آپ اتنا مضبوط بنا لیا کہ ایک بھی آنسو بہائے بنا، بے جا جذباتیت کے بغیر عبدالغفار کو اپنا فیصلہ سنا دیا۔ وہ گھر میرا ہے، میں بالکل بھی نہیں بیچوں گی۔ کر لو، جو کرنا یے۔

۔

کابلی پلاؤ کا ایک اور کردار شمیم شروع میں حاسد، درمیان میں بے حد جذباتی اور آخر میں بے لوث دوست بن گئی۔ وہ حاجی صاحب کے تمام تر جذبات و احساسات کو بہ خوبی سمجھتی تھی۔ شمیم اور حاجی صاحب کا تعلق بہت خوبصورت تھا۔

حاجی صاحب نے خاندان کی خاطر شادی نہ کر کے اپنی جوانی، جذبات اور احساسات کی قربانی دی تھی۔ شلوار قمیص میں ملبوس پچاس کے پیٹے میں عام سا شخص اس ڈرامے کا ہیرو تھا۔ عورت کی عزت کرنے والا، نرم خو شخص پچاس سال کے پیٹے میں بھی ہو تو بھی ہیرو ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ کوئی بھی انسان جذبات سے ماورا نہیں ہے۔

چالیس پینتالیس کی عمر سے اوپر والے ہیرو دکھائے جا سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ سِکس پیکس والے یونیورسٹی طالب علم ہی دکھائے جائیں۔ (جو گھر میں بیٹھی پھوپھی/چاچی/ تائی/اماں کو اپنے بچوں جیسے لگتے ہیں نہ کہ ہیرو۔

کابلی پلاؤ کی پوری ٹیم کو شاباش

ابیہا علی

آپ اسی بلاگ پر کیا گیا اگزشتہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

مہارانی: ایک ان پڑھ خاتون سے ریاست کی طاقت ور عورت بننے کی کہانی

About Abeeha Ali

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *