موچنگ | سحر ساجد | اردو تبصرہ

ناول: موچنگ

مصنفہ: سحر ساجد

تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان

میں نے سحر ساجد کی لکھی تقریباً سب کہانیاں پڑھی ہیں۔ لیکن موچنگ نے یک دم جیسے دل کو چھو لیا۔ یہ کہانی تھی ایک کمہار بلکہ کمہارن کی یعنی سارگل کی۔

۔

کون تھی سارگل؟

وہ اس پرانے زمانے میں بھی مشہورِ عالم تھی، جب بیٹیوں کو چھپا کر رکھا جاتا تھا۔

اور کون تھا نواب شجاع الملک؟

موچنگ میں شجاع الملک کا عشق ایک مہندی رنگے ہاتھ سے شروع ہوا۔ سارگل پردہ دار لڑکی تھی مگر نواب شجاع الملک اس کے ہاتھ کی جھلک دیکھ کر دیوانہ ہو گیا۔ کیا زمانہ تھا وہ بھی کہ لکا چھپی پر بھی عشق لاحق ہو جاتا تھا۔ کیا ہی زمانہ تھا، ہے اور شاید رہے گا کہ ذات پات ہر معاملے میں حائل۔ چھوٹی ذاتیں کل بھی ناقابلِ قبول تھیں، آج بھی ہیں اور شاید آنے والے وقتوں میں بھی رہیں گی۔ کون جانے کتنے شجاع الملک ہوں گے جو مخدوم طیب سلمان وارث کا روپ دھاریں گے۔۔۔ جانے کتنی سارگل فرازین سجاد بنیں گی۔

۔

لیکن اصل چیز تو موچنگ کی بنت ہے۔ تشبیہات اور استعارے ہیں۔ ان پرانی ادھرانی رسموں کا قصہ ہے، جو دم توڑ چکیں۔ ٹھہرا ٹھہرا سا وقت، سست رفتار ذرائع آمد و رفت، حویلیاں، جھروکے، نوابی ٹھاٹ باٹ اور لکا چھپی کا کھیل۔

موچنگ میں سارگل تھی، دین محمد اور زیبن کی سارگل۔۔۔ جو خود ایک ساز تھی اور اس ساز کا سب سے مدھر سر تھا ”پردہ“۔۔۔ شجاع الملک، کہنے کو ایک نواب تھا۔۔۔ مگر ایک لا حاصل عشق نے اسے غرق کر دیا۔ حضرت بیگم، ہائے کیسی کم بخت ماں تھیں اور کیا ناٹک تھے۔ بڑے نواب، زیرک و دانا تھے۔۔۔ زمانہ ساز مگر نا سمجھ بھی تھے، دل کی لگی کو مزید بڑھکا ڈالا۔ حسینی، کیا رازدار تھی، کیا دمساز تھی۔ ”میں محبت ہار گیا حسینی۔“ اس جملے میں کتنی کسک، کیسی تڑپ ہے۔۔۔ یہ کوئی دل والا پڑھے تو بوجھ نہ سہار پائے۔۔۔ اس نامراد عشق کے پیچھے خود کو رول دیا نواب ابن نواب شجاع الملک نے اور ناکامی کی عملی تفسیر بن گیا۔

سارگل کون سا پیچھے رہی۔ اس نے خود کو زمانے کی رسموں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس نے اپنے دل کو دھڑکنے سے روک دیا۔۔۔ لیکن دین محمد اور زیبن کی عزت سنبھال گئی۔ ایک چیز، ہاں بس ایک چیز اٹل ہے۔۔۔ شاید ہر سوہنی کا مقدر ڈوبنا ہے۔۔۔ کبھی وہ کچے گھڑے کی وجہ سے ڈوب جاتی ہے۔۔۔ اور کبھی موچنگ کی سارگل کا دل ڈوب جاتا ہے۔

Previous review by Sidra Javed Nights In Rodanthe

Leave a Comment