تبصرہ
عشق کا شین
علیم الحق حقی کا شہرہ آفاق ناول
عشق کا شین از علیم الحق حقی
تبصرہ از فہمیدہ فرید خان
مجذوب یوں تیز قدم اٹھاتا چل رہا تھا، جیسے کہیں پہنچنے کی جلدی ہو۔ پھر وہ ایک دم سے بیٹھ گیا، ساکت ہو گیا۔ اس کے جسم میں تو کجا، کپڑوں میں بھی جنبش نہیں تھی۔ حالانکہ خاصی تیز ہوا چل رہی تھی۔ٹھاکر پرتاپ سنگھ تیزی سے آگے بڑھا۔ وہ نجانے کیوں پریشان ہو گیا تھا۔ مجذوب اس سے کوئی بیس قدم دور تھا۔ ٹھاکر اس کے پاس پہنچا اور اس کے آگے کی طرف پھیلے ہوئے ہاتھ کو چھو کر دیکھا۔ وہ حیران ہو گیا۔ مجذوب کا ہاتھ برف کی طرح سرد تھا۔ٹھاکر سیدھا کھڑا ہو گیا اور مجذوب کو غور سے دیکھا۔ اس کا دل تاسف سے بھر گیا۔ مجذوب کے سینے میں سانسوں کا تموج بھی نہیں تھا۔
_
عشق کا شین کی ابتداء نے مجھے جکڑ لیا تھا۔۔۔ لیکن تموج پر پہنچ کر میں نے ایک گہرا سانس لیا اور خود سے سوال کیا کہ کیا مجھے یہ ناول آگے پڑھنا چاہیئے اور جواب اثبات میں تھا۔
اٹھارہ اگست ۲۰۱۹ء کو اس ناول کے بارے میں گروپ میں پوچھا۔ تب مجھے معلوم پڑا یہ نامکمل ہے کیونکہ اسے لکھنے کے دوران حقی صاحب کی وفات ہو گئی تھی۔ تاہم ساتھ ہی حوصلہ افزاء خبر یہ ملی کہ امجد جاوید صاحب نے اس کا دوسرا حصہ تحریر کیا ہے۔ میں پہلی بار حقی صاحب کا کوئی ناول پڑھنے لگی تھی۔ شومئی قسمت نگاہِ انتخاب ٹھہری بھی تو کہاں۔۔۔ میں اس پر تفصیلی تبصرہ کرنا چاہتی تھی لیکن پوری تحریر کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ کسی بھی طویل ترین تصنیف پر تبصرہ کرنے کا یہ میرا اولین تجربہ ہے۔ دیکھتے ہیں میں کہاں تک کامیاب ہوتی ہوں۔
خیر جی، امجد جاوید صاحب کے ناول مکمل کرنے کا سن کر میں نے کمر باندھ لی۔ اٹھارہ اگست کو پڑھنا شروع کیا اور صرف دو دن میں اس کے چھ کے چھ حصے پڑھ ڈالے۔۔۔ پھر درج ذیل نتائج اخذ کیے۔
ﻋﺸﻖ کا ﻋﯿﻦ ﻋﻤﻞ سے عبارت ﮨﮯ۔۔۔
ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﺷﯿﻦ ﺷﺪﺕ سے مرسوم ہے۔۔۔
ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ کا ﻗﺎﻑ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ کی سند ہے۔۔۔
_
عشق کا شین کی کہانی ٹھاکر پرتاپ سنگھ سے شروع ہوئی تھی سو پہلے اسی کردار پر بات کر لیتے ہیں۔۔۔ ایک کٹر ہندو کی آبائی حویلی میں ہر گام بھگوان کی پرارتھنا کی جاتی تھی۔ ٹھاکرانی رنجنا تو بھگوان کے آگے کسی کی مانتی ہی نہیں تھی۔ اسی حویلی میں ناول کا مرکزی کردار یعنی ٹھاکر اوتار سنگھ کی پیدا ہوا۔ اس کے پیدائش کے ساتھ ہی سنسنی خیز واقعات پیش آنے لگے۔ ٹھاکر پرتاپ سنگھ ایک دن بے خودی کے عالم میں حویلی سے باہر نکلا اور متذکرہ بالا مجذوب اس سے ٹکرا گیا۔ اس کی عجیب و غریب باتیں ٹھاکر کو الجھانے لگیں۔ ادھر بچے کی شخصیت کے اسرار ٹھاکرانی اور نوکرانیوں کو چونکانے لگے۔۔۔ طرہ یہ کہ پنڈت روپ سہائے اس بچے کی جنم کنڈلی بناتے ہوئے عجیب کیفیات میں گھر گیا۔
پہلا حصہ کیسے ختم ہوا، پتہ بھی نہیں چلا۔۔۔ روانی، بہاؤ اور الفاظ کا بہترین تال میل واللہ۔۔۔ ٹھاکر اوتار سنگھ کے ساتھ پیش آنے والے چیدہ چیدہ واقعات اس کا دل ہندو مت سے اٹھا دیا۔ ماں کے دیہانت کے بعد وہ اپنے دھرم سے متنفر ہو گیا تھا۔ پھر وہ پڑھائی کے سلسلے میں دہلی چلا گیا۔ وہاں اس کا مالک مکان خاندان مسلمان تھا۔ ایک دن وہ ان کی لڑکی کی تلاوت سن کر تلاوت کر وہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ یہیں سے اس کا ایمان طرف سفر شروع ہو جاتا ہے۔
_
جس رات وہ مسلمان ہوا، تب بھی نور بانو سورۃ الملک کی آیات تلاوت کر رہی تھی۔۔۔ یہاں یک دم وہی مجذوب جانے کہاں سے آن وارد ہوتے ہیں۔ وہ اوتار سنگھ کو قبولِ اسلام میں مدد دیتے ہیں۔ اس کا اسلامی نام عبدالحق رکھا جاتا ہے۔
جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربی زبان ہے تو وہ عربی زبان سیکھنا شروع کر دیتا ہے۔ پھر وہ تلاوت کے معنی و مطالب پر غور کرتا رہتا ہے۔ ”تم آسمان کو کیوں نہیں دیکھتے۔ تم تاروں کو کیوں نہیں دیکھتے؟ کیا تم بنانے والے کی تخلیق میں کوئی ٹیڑھا پن پاتے ہو؟“ سورۃ الملک کی یہ آیات اسے جستجو میں ڈال دیتی ہیں۔ وہ وقتی جوش کے زیرِ اثر نہیں ہوتا بلکہ وہ باریک بینی سے ہر چیز کا مطالعہ کرتا ہے۔ اسے حق کی تلاش میں پوری طرح سرگرداں دکھایا گیا۔
عشق کا شین میں باپ بیٹے کی ایک حیرت انگیز مماثلث دکھائی گئی۔ دونوں (پرتاپ سنگھ اور اوتار سنگھ) ایک ہی سورت پر غور کر کے مسلمان ہوئے تھے یعنی سورۃ الملک کی، سبحان اللہ۔۔۔
_
تقسیمِ برصغیر سے پنڈت روپ سہائے کی ایک پیشنگوئی پوری ہوئی۔ اس کے مطابق اوتار سنگھ کی قسمت میں بیرونِ ملک سفر نہیں تھا لیکن اس کی موت دوسرے ملک میں واقع ہونا تھی۔
ایک دن چھوٹا ٹھاکر اوتار سنگھ مندر میں کلہاڑی، ہتھوڑا اور مٹھائی لے کر داخل ہوا تاکہ بھگوان کی سیوا کر سکے۔ مندر میں پوجا پاٹ کرنے والا کوئی موجود نہیں تھا کیونکہ سب جے پور کے میلے میں مصروف تھے۔ پنڈت اور اس کے ساتھیوں کو چھوٹے ٹھاکر نے جھانسہ دیا ہوا تھا۔۔۔ پھر عبدالحق نے بت توڑ کر ان قربانیوں یاد تازہ کی۔ جیسا کہ ہم بت شکنوں کے بارے میں پڑھتے اور سنتے آ رہے ہیں۔
عشق کا شین میں ٹھاکر پرتاپ سنگھ تھا، جو ایمان کی دولت پانے کے بعد میں عبداللہ بن گیا تھا۔ وہ اپنے بیٹے کا کارنامہ جان کر راہِ حق میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا۔ ”دفن کرنا، جلانا نہیں“ عبداللہ کے الفاظ عبدالحق کو اس وقت تک مخمصے میں ڈالے رکھتے ہیں، جب تک وہ باپ کا روزنامچہ نہیں پڑھ لیتا۔
_
اس کہانی میں جمال دین، حمیدہ اور وصال دین تھے۔۔۔ جن کے دم سے اوتار سنگھ نے زندگی اور بندگی کا سلیقہ سیکھا۔ اس علاقے میں مسلمانوں کا صرف ایک گھر تھا یعنی جمال دین کا۔۔۔ یہ خاندان حادثاتی طور پر آ کر آباد ہوا تھا لیکن وفاداری اور دوستی کی داستاں رقم کر گیا۔
اس میں محمود ہوتا ہے جو اوتار سنگھ کے لیے مسلمانوں کے کردار کا استعارہ بنتا ہے۔ نڈر، بہادر، دلیر اور کلمہ حق کہنے والا۔
پھر نادرہ ہوتی ہے۔ وہ اوتار سنگھ کو کلمہ سے ہمارے دین اساس کہہ کر متعارف کرواتی ہے۔ وہی نادرہ بعد میں کوٹھے پر رہ کر بھی سنبھل سنبھل کر چلتی ہے۔ وہ عبدالحق کی دوسری بیوی ارجمند کی پھوپھی ہوتی ہے۔۔۔
اس کہانی میں ماسٹر صاحب اور مولوی صاحب بھی تھے۔ وہ عبدالحق کے لیے دینی اور دنیاوی علوم کا مینارہِ نور تھے۔۔۔
ایک نور بانو بھی تھی، حور بانو کی بہن۔۔۔ جو محبت میں سب جائز سمجھتی تھی۔۔۔ اوتار سنگھ جو بعد میں عبدالحق بنا۔ وہ جس آواز کو سن کر مسحور ہوا تھا، وہ حور بانو کی تھی۔ وہ ہندو مسلم فسادات کی نذر ہو گئی تھی۔ اس کی واحد بچ جانے والی بہن نور بانو بعد میں عبدالحق کی شریکِ حیات بنی۔ تاہم عبدالحق کو اس بات کا علم نہیں تھا۔ وہ اسے تلاوت والی لڑکی سمجھ کر ہی اونچے سنگھاسن پر بٹھائے ہوا تھا۔ اس بات سے نور بانو بھرپور فائدہ اٹھاتی تھی۔
_
پھر افضال صاحب تھے۔ وہ اپنی بیٹی کے لٹنے کا کفارہ ادا کرنے کے لیے زرینہ کو کوٹھے سے نکال لائے تھے لیکن خود نیم پاگل ہو گئے تھے۔ زرینہ بعد میں عبدالحق کی بہن کے رشتے کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔
اور اس میں ارجی عرف ارجمند تھی۔ بہت ہی پیاری اور معصوم عشق کرنے والی بچی۔۔۔ جس نے اوائل عمری سے ہی ایک انسان یعن عبدالحق کو پورے وقار اور سچائی کے ساتھ چاہا۔ پھر اس کی شریکِ حیات بن کر اس کے دل پر راج کرنے لگی۔
وہیں کہیں نواب اشرف علی خان کی داستان بھی ہے جو اپنی پوری کمائی کوٹھے پر لٹا کر وہیں کے ہو رہے۔ نادرہ کی بدولت ان کو ایمان کی ایسی دولت ملی کہ اللہ سبحانہ و تعالٰی نے انہیں اپنے در پہ بلا لیا۔
افسروں کے لیے مثال مسعود صاحب تھے۔۔۔۔ تو بہکتے بہکتے سنبھل جانے والا عارف بھی تھا۔۔۔
عشق کا شین کی کہانی چلتے چلتے اگلی نسل پر آ رکی تھی۔ نورالحق ارجمند کا بیٹا تھا لیکن نور بانو کا مانا جاتا تھا۔ نور بانو نے عبدالحق کو دام میں لانے کی سازش میں ایک عجیب و غریب جال بنا تھا۔ آخر میں اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا لیکن موت نے اسے مہلت نہ دی۔ کسی کو بتانے سے قبل ہی وہ راہیِ عدم کی مسافر ہو گئی۔
_
اپنے کسی عمل پر پھولنا نہیں چاہیئے۔ اس لیے کہ وہ اس کے رب کی طرف سے ہوتا ہے۔ توفیق بھی وہی دیتا ہے۔ قوتِ عمل بھی اس کی دی ہوئی ہے۔ راستہ بھی وہی بناتا ہے اور بندے کے اندر عمل کی تلقین بھی وہی ڈالتا ہے۔ بندے کا تو کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اچھا عمل کر کے خود پر فخر کر لیا تو سب کچھ تباہ کر لیا۔ دوسری بات یہ کہ اللہ کے لیے کرو تو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ جتنی بھاری قیمت ادا کرو گے عمل اُتنا ہی مقبول ہو گا۔ مگر قیمت ادا کرنے کے بعد کے آداب بھی ہیں۔ قیمت ادا کر کے پچھتائے، افسوس کیا، غم کیا تو سب کچھ ختم۔ جتنی بڑی قیمت ادا کرو اُتنی ہی خندہ پیشانی سے رہو۔ اللہ کے عام بندوں میں اور خاص بندوں میں یہ ہی فرق ہے۔
یہ ایک طویل داستان تھی۔۔۔ اس داستان میں بہت سے کردار ہیں اور بے شمار حالات و واقعات۔۔۔ اگر جاری رہتی تو شاید یہ کہانی اوجِ کمال پر جاتی۔ لیکن حقی صاحب کو اللہ سبحانہ و تعالی غریق رحمت کرے، ان کی سانسوں کی گنتی پوری ہو گئی تھی۔
حقی صاحب والا حصہ پڑھ لیا ہے۔۔۔ اب دیکھیے امجد جاوید صاحب والا کب پڑھا جاتا ہے۔
بتاریخ ۲۴ اگست ۲۰۱۹ء
فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ عشق کا قاف
Truly no matter if someone doesn’t be aware of then its
up to other visitors that they will assist, so here it occurs.
Absolutely true.