Home » Travel With Me » تیری زلف کے سر ہونے تک
تیری زلف کے سر ہونے تک ناول
تیری زلف کے سر ہونے تک از اقرا صغیر احمد

تیری زلف کے سر ہونے تک

تیری زلف کے سر ہونے تک ناول

تیری زلف کے سر ہونے تک از اقرا صغیر احمد

تبصرہ از فہمیدہ فرید خان

لو جی بالآخر مابدولت نے ایک اور ناول کا قلمع قمع کر دیا۔ جی ہاں اس_کے_پیچھے_بھی_ایک_کہانی_ہے۔ اتنے دنوں سے الرجی اور سر درد نے دماغ پلپلا کر کے رکھ دیا تھا۔ سوچا کچھ پڑھ لیا جائے سو کسک گروپ میں جا پوسٹ لگائی۔ شہرزاد نے تیری زلف کے سر ہونے تک ناول کے بارے میں بتایا۔ ہم نے سوچا شاید نہیں پڑھا سو آؤ دیکھا نہ تاؤ پڑھنا شروع کر دیا۔ بیچ میں مابدولت کو محسوس بھی ہوا شاید میں پڑھ چکی ہوں مگر مجھے وقت ضائع کرنا ہی مقصود تھا اس لیے پڑھنا جاری رکھا۔

ناول کی کہانی میں روانی تھی بٹ (یہ لفظ جتنی بار پڑھا، تپ چڑھتی رہی) ازحد درمیانی تھی۔۔۔۔ اس میں تین چار ٹریک تھے جن کی وضاحت کی کوشش کرتی ہوں۔

ایک ٹریک کا ہیرو نوفل عکرمہ تھا جو بات بات پر پستول نکال لیتا تھا۔۔۔ اس کو تایا تائی (زرقا، یوسف) نے پالا تھا کیونکہ اس کے والد سرطان کی وجہ سے فوت ہوئے تھے۔ ویسے شروع میں مجھے لگا حادثے میں وفات ہوئی تھی منظر کشی ہی کچھ ایسی تھی #اچھا_سوری۔۔۔ نوفل کی والدہ شعوانہ شوہر سے بے وفائی کے سبب بیٹے کی نظروں میں معتوب تھیں۔۔۔ شعوانہ کا دوسرا شوہر تھا فیضان۔۔۔

یوسف کی دو بیویاں تھیں زرقا اور حمرہ۔۔۔ ایک بابا تھے جن سے یوسف روحانی مشورے لیتے تھے۔ نوفل کے چچا اذہان، چچی سامعہ اور ان کا بیٹا لاریب بھی اسی خاندان کا حصہ تھے۔ لاریب کی بے راہ روی نے ایک اینڈ شد و مد سے سنبھالے رکھا۔ اس کے علاوہ نوفل کا دوست بابر تھا اور انشراح کی سہیلی عاکفہ تھی۔ ان دونوں کی سیٹنگ ہو گئی تھی یعنی کم مکیا۔۔۔ نوفل کے ماموں تنویر اور ان کی بیٹی ساریہ تنویر جو نوفل میں دلچسپی لے رہی تھی۔

ایک ٹریک کی ہیروئین انشرح تھی۔ جو اپنی نانی جہاں آراء اور بالی کے ساتھ رہتی تھی۔ اس کی ایک خالہ روشن بیرون ملک مقیم تھی جو بعد میں ماں نکلی۔۔۔ ایک کردار نویرہ کا تھا جس کے یوسف کے ساتھ تعلقات تھے۔ پھر سراج تھا جہاں آراء کا کرائم پارٹنر اور برکھا تھی جس کا تعلق اس بازار سے تھا۔۔۔

نویرہ اور یوسف کے تعلقات کا کیا نتیجہ نکلا؟

بالی کون تھا/تھی؟ سراج اور برکھا کا کیا انجام ہوا؟

اس کی میں وضاحت نہیں کر سکتی۔۔۔۔

نوفل والے ٹریک میں ایک عدد صحافی سیف فاروقی تھا جو یوسف کو بلیک میل کر رہا تھا۔ پھر ملک سے بھاگ گیا۔ آخر میں اس کا کیا بنا؟ اس کی وضاحت مصنفہ بھی نہیں کر سکی تھیں۔۔۔

دوسرے ٹریک میں زید ہیرو تھا۔ یہ ہیرو کافی اچھا تھا اگر آخر میں رونے والی چولیں نہ مارتا۔۔۔ اس کی محبت کا پتہ اس سے زیادہ اس کے سوتیلے بھائی شاہ زیب کو تھا۔ اس گھر میں تھے زید کے تایا منور، تائی زمرد، والدہ عمرانہ، بہن مائدہ اور بوا۔۔۔ ارے ارے رکیے زید کی ہیروئین کو مت بھولیے سودہ یعنی بیوہ پھوپھی صوفیہ کی نورِ نظر، جن سے عمرانہ بیگم کو خدا واسطے کا بیر تھا۔۔۔ اس کے والد مدثر اور اپنی دوسری بیوی صالحہ اور بیٹے شاہ زیب کے ساتھ الگ گھر میں رہتے تھے۔

مدثر نے دوسری شادی کیوں کی تھی بھلا؟ اس کی میں وضاحت نہیں کر سکتی۔۔۔

عمرانہ کی بہن رضوانہ اور ان کی دو بیٹیاں عفرا اور عروہ تھیں۔ عروہ زید کو پسند کرتی تھی اور عمرانہ نے اس کی سیٹنگ کروانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔

عروہ کی شادی زید سے کیوں ممکن نہ پائی؟ اس کی میں وضاحت نہیں کر سکتی۔۔۔

اور ہاں صوفیہ کی نند اچھی آپا اور ان کے بیٹے پیارے میاں اور بیٹی چندا بھی تو تھے۔ پیارے میاں کی شادی سودہ سے ہوتے ہوتے رہ گئی۔کیوں؟ اس کی میں وضاحت نہیں کر سکتی۔۔۔

بیچ میں ایک جگہ نانی جہاں آراء، بالی اور انشراح کو لے کر فرار ہو جاتی ہیں۔۔۔ پھر اچانک عاکفہ کو ان کے ہاں دیکھ کر میں ہک دک۔۔۔ وہ کب واپس آئیں، کیوں آئیں، کیسے آئیں؟ اس کی مصنفہ بھی وضاحت نہیں کر سکیں۔۔۔۔

تیری زلف کے سر ہونے تک میں ناموں اور مکالموں کا بہت پنگا تھا۔۔۔۔ عفرا اور عروہ چھوٹی بڑی یعنی ادلی بدلی ہوتی رہیں۔ زید کا دوست مومن اچانک جنید بن گیا۔ ہاں مجھے یہ بتانا یاد نہیں رہا تھا کہ وہ مائدہ کا ہیرو تھا۔ حتٰی کہ تایا منور کے نام کو نہ بخشا گیا۔ عروسہ اچانک صالحہ میں تبدیل ہو گئیں۔۔۔ ایک گھر کے کردار اور مکالمے بڑے آرام سے دوسرے گھر میں مٹر گشتیاں کرتے پائے جاتے رہے۔ آدھا منظر کہیں سے اور آدھا کہیں سے برآمد ہوا۔۔۔ بابا ڈیڈی اور پاپا میں بدل جاتے رہے۔۔۔۔ مما ممی میں۔۔۔۔۔ ماما آنٹی میں اور کبھی تائی میں افففففف۔۔۔

ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ اس کی میں وضاحت نہیں کر سکتی۔۔۔

کہانی کا مرکزی خیال تھا میں تیرا دشمن، تو میرا دشمن۔۔۔ میں نہ بھولوں گی، تم نہ بھولو گے۔۔۔ میں نہ مانوں گی، تم نہ مانو گے۔۔۔۔ میں نہ معاف کروں گی، تم نہ معاف کرو گے۔۔۔ ایک دور سے دوسرے دور تک دشمنی نفرت چلائیں گے، بچپن سے جوانی تک۔۔۔۔ جوانی سے بڑھاپے تک اور آخر میں سب پھسسسسسسسسس۔۔۔

حرفِ آخر۔۔۔ ہیروز بار بار غصے سے ابل پڑتے، کبھی یکایک رومانوی جذبات سے لبریز ہو جاتے اور کبھی اچانک رو پڑتے تھے۔۔۔ ایسا کیسے کیوں ہوتا رہا؟ ان وجوہات کی میں وضاحت نہیں کر سکتی۔۔۔

#The_Fehmiology

#FFKhan

#FFK

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *