تبصرہ
آبِ حیات
عمیرہ احمد کا ناول
آبِ حیات سے دس سال قبل پیرِ کامل ایک ادبی پرچے میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ اس ناول نے اُردو فکش کو ایک نیا اسلوب سے روشناس کروایا۔
کتابی شکل میں آنے کے بعد اس کا جادو مزید سر چڑھ کر بولنے لگا۔ سالار اس دور کا بہترین ہیرو قرار پایا، وہیں امامہ سے حسد کرنے والے بھی بے شمار تھے بلکہ تھیں۔۔۔ یہ ادبی دنیا کا ایک مثالی جوڑا تھا۔ مزے کی بات قارئین ان پر یوں فدا ہیں، جیسے یہ کردار زندہ جاوید ہوں اور اردگرد کہیں رہتے بستے ہوں۔
_
پیرِ کامل کے بعد عمیرہ احمد نے اس کا اگلا حصہ لکھنے کا اعلان کیا۔ تب سے قارئین ایک اور شاہکار کے شدت سے منتظر تھے۔ بالآخر دس سال کے طویل انتظار کے بعد اس وعدے کی تکمیل آبِ حیات کی شکل میں ہوئی۔ اسے پڑھ کر عمیرہ احمد کے مداحین شکوک و شبہات اور ابہام کا شکار ہو گئے آیا یہ تحریر عمیرہ احمد کی ہے۔ اس کا طرزِ سخن پیرِ کامل سے قطعی مختلف تھا۔
آبِ حیات کی شروعات وہاں سے ہوئی، جہاں پیرِ کامل کا اختتام ہوا تھا۔ شروعات میں عمرہ والا حصہ حذف کر دیا گیا۔ لیکن اسے بیتِ العنکبوت میں شامل کیا گیا۔ سالار اور امامہ کے نکاح کے بعد سے قصہ آدم و حوا شروع ہوا۔ پھر بیتِ العنکبوت۔ اگر دیکھا جائے تو یہ دونوں ابواب پیرِ کامل کا ہی حصہ ہیں۔
دونوں ناولوں میں نام نہاد مسلمانوں کے دوغلے پن کا پردہ چاک کیا گیا یے۔ پیرِ کامل میں جلال انصر تھا جو ایک مسلمان گھرانے کا چشمِ و چراغ اور پابندِ شریعت تھا۔ ذرا سا آزمائشی دور آیا اور اس کا اسلامی تشخص، داڑھی کی طرح صاف ہو گیا۔ سعد دوسرا شخص تھا جو ایک طرف اسلامی شعار کی تبلیغ کرتے نہیں تھکتا تھا… دوسری طرف خنزیر کھانے پر بھی رضامند تھا۔
_
یہی خصلت آبِ حیات میں احسن سعد کی بتائی گئی۔ وہ تبلیغی معاملات میں خوش گفتار اور چرب زبان تھا۔ لیکن عائلی زندگی میں شقی القلب اور بدگمان تھا۔ اس نے عائشہ عابدین کو ذہنی تشدد سے اس نہج تک پہنچا دیا تھا کہ اسے اپنا آپ ہی غلط لگنا شروع ہو گیا تھا۔ وہ خود اذیتی میں مبتلا تھی۔ احسن سعد کے رویے کا دوغلا پن ایرک عبداللہ جیسا زیرک انسان بھی نہ سمجھ سکا۔ ایسے لوگ آج کے دور میں عبداللہ بن ابی ہیں۔
جب قارئین اپنے پسندیدہ مصنفین کے بارے میں حد درجہ حساس ہو جائیں تو حیرت ہوتی ہے۔ انہیں ماورائی مخلوق سمجھ کر اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیتے ہیں۔ کبھی معمولی بات پر رعایت دینے کو تیار نہیں ہوتے۔۔۔ کبھی غلط حرکت کی پردہ پوشی کرتے ہیں۔ یاد رکھیں مصنف بھی انسان ہے۔ اس میں بھی بشری کمزوریاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
رئیسہ کو سالار اور امامہ نے گود لیا تھا۔ لیکن عمیرہ احمد اس حصے سے پوری طرح انصاف نہیں کر پائیں۔ انہوں نے معاملے کے صرف ایک رخ کو اجاگر کیا۔ یعنی رئیسہ کی اچھی پرورش۔ مگر اسلامی احکامات اور شریعت سے وہ دانستہ چشم پوشی اختیار کر گئیں۔ گویا ان کے نزدیک لے پالک بچے کے اصل ماں باپ کا ذکر بے معنی تھا۔ میری رائے میں ان کا ادبی قد کاٹھ مزید بڑھ جاتا، اگر وہ اس موضوع پر لب کشائی کر لیتیں۔
_
آبِ حیات کے سفر کی شروعات جبلِ رحمت سے ہوئی۔ وہاں اِمامہ سالار سے بینک کی ملازمت چھوڑنے پر بضد ہوتی ہے۔اِمامہ اسے ہمارے پیارے نبی ﷺ کا خطبہ حج الوداع یاد دلاتی ہے جس میں آپ ﷺ نے سود کو اللہ اور اس کے رسول کے خلاف کھلی جنگ قرار دیا تھا۔
عمیرہ احمد نے اس ناول میں سود کے مسئلے کو آسان اور عام فہم طریقے سے اٹھایا ہے۔ آگے چل کر سالار نے کٹھنائیوں کے باوجود سود سے پاک نظام کے تصور کو سچ کر دکھایا۔ اگر ایسا حقیقت میں ہو تو کمال ہو جائے۔
سالار کے دماغ کی رسولی پر مصنفہ نے چابک دستی سے لکھا۔ انہوں نے بتایا کہ ضروری نہیں کوئی مسلسل کامیابیاں سمیٹتا رہے۔ ہر کامیاب انسان کی زندگی میں بھی بے شمار رکاوٹیں آتی ہیں۔ لیکن ان مشکلات سے ہر ایک اپنے انداز میں نمٹتا ہے۔
دوسری جانب قاری نے سکندر عثمان کے حالاتِ زندگی دیکھے اور ان کی موت پر دل برداشتہ بھی ہوا۔ اس داستان کا اہم ستون اِمامہ کی منہ دکھائی کی انگوٹھی رہی. اس سے جڑی ان دونوں کی محبت اور دلی وابستگی۔
_
ناول کے مجموعی تاثر کی بات کریں تو کچھ لوگوں کے نزدیک یہ ایک خوش حال خاندان کی عام سی کہانی ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ موضوع گھسا پٹا ہے لیکن اس سادہ قصے کو عمیرہ احمد کے قلم نے الفاظ کا ایسا پیراہن دیا کہ قاری مسحور ہو جاتا ہے۔ وہ قاری کے سامنے زندگی کے ان گوشوں کو بے نقاب کرتی ہیں جن سے وہ جان بوجھ کر ان سے پہلوتہی اختیار کرتا ہے۔
کہانی میں سب ابواب کو تاش کے پتوں کی طرح ترتیب دیا گیا کیوں کہ انہیں مناسب وقت پر سامنے لایا جانا مقصود تھا۔
باب حاصل محصول ”کیا کھویا، کیا پایا“ کے تصور پر مشتمل ہے۔ اس باب میں سالار اور اِمامہ کی اپنا ذاتی گھر بنانے کی تگ و دو، خواب، خواہشات اور قربانیاں دکھائی گئیں۔ یا مجیب السائلین، ابداً ابداٌ اور تبارک الذی کو عمیرہ احمد نے صراحت سے لکھا ہے… انہوں نے ہر کردار کے ساتھ بھرپور انصاف کیا ہے۔ چاہے وہ جبریل کی گنجلک نفسیات ہو یا عنایہ کی معاملہ فہم طبیعت۔ حمین اور رئیسہ کی پرورش کا معاملہ ہو یا ایرک عبداللہ کا عنایہ سے رشتہ جڑنا۔ پھر احسن سعد کی زہریلی فطرت… عائشہ عابدین کی دکھ بھری زندگی اور ہشام کی زندگی کی مشکلات… قاری مصنفہ کی منظر نگاری پر اش اش کرتا رہا۔
_
اگر آبِ حیات دس سال پہلے آتا تو اس وقت حمین اور اس کی حرکات و سکنات پر قارئین کو سخت اعتراض ہوتا… لیکن نئی پود کو دیکھ کر حمین ایک حقیقی کردار لگنے لگا ہے۔ وہ سالار سکندر کا بیٹا تھا نا۔ سی آئی اے نے دواؤں کے ذریعے اس کی پیدائش تین ہفتے قبل کروانے کی تدبیر کی۔ بقول مصنفہ اگر وہ جان جاتے حمین سکندر اصل میں ہے کیا ہے؟ تو وہ تین سو سال تک اس کی پیدائش نہ ہونے دیتے۔ وہ سویا ہوا جن تھا، جو بیدار ہونے کے لیے اپنے والد کا انتظار کر رہا تھا۔ سب سے دلچسپ چیز اس کا آنکھوں کو گول گول گھمانا اور بغیر آنسوؤں کے گلا پھاڑ کر رونا تھا۔ ناول میں حمین کی ہیروئین نہیں تھی۔ اگر ہوتی تو ہاہاکار مچ جانا تھی۔ پھر لوگ شاید امامہ کو بھول جاتے۔
پیرِ کامل اور آبِ حیات کا تقابلی جائزہ ممکن ہے نہ ان کا کوئی جوڑ ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پیرِ کامل کی نامکمل داستان کو آبِ حیات نے مکمل کر دیا۔
تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان
بتاریخ ۲۶ مارچ ۲۰۱۸
فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ عشق کا شین