Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti
Home » Fehmiology Recounts » زندگی ہر جینے والے کے پاس (Paas) نہیں ہوتی – چوتھا حصٌہ

زندگی ہر جینے والے کے پاس (Paas) نہیں ہوتی – چوتھا حصٌہ

آپ بیتی - حصّہ چہارم

Zindagi - زندگی

زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی۔

Follow
User Rating: 4.02 ( 2 votes)

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi H

چوتھا حصٌہ

میں نے تقریباً چھ ماہ اس ٹور کمپنی کے لیے کام کیا۔ دن میں دو بلاگ لکھ کر ڈرافٹ کرنا ہوتے تھے۔ تب مجھے باقی کسی کام کی سدھ بدھ نہیں تھی۔ معاہدہ ختم ہونے سے پہلے ایک اور جگہ کام مل گیا۔ بیچ میں معاوضہ پر پھڈا پڑ ہو گیا۔ میں نے باقی آرٹیکل اپنے بلاگ پر شائع کرنا شروع کر دیئے۔ جی ہاں، وہی بلاگ جو اشعر نے بنا کر دیا تھا۔ مجھے یہ میڈیم یعنی بلاگر پسند نہیں آیا تھا۔ اس لیے میں نے ورڈ پریس پر ویب سائٹ بنانے کا ارادہ کیا۔

۔

اسی دوران میرے پاس ایک کتاب نظرِ ثانی کے لیے آئی۔ ہوا یوں کہ بلاگرز گروپ میں ایک صاحب نے پوچھا کوئی کتاب کی ایڈیٹنگ کر سکتا ہے۔ میں نے یہ کام کبھی نہیں کیا تھا۔ لیکن میری انگریزی اچھی تھی تو میں نے بولا، میں کر سکتی ہوں۔ جس پر انہوں نے مجھے چند نمونے نظرِ ثانی کے لیے بھیجے۔ میں نے آدھے گھنٹے میں انہیں کام مکمل کر کے دے دیا۔ تاہم حسبِ دستور امید نہ لگائی۔ ٹھیک پانچ منٹ بعد ان کا پیغام ملا، کتنے پیسے لیں گی آپ؟ میری حیرت کی انتہا نہ رہی۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

نظرِ ثانی کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا جو کامیاب گیا۔ مصنف نے نہ صرف مجھے بہت اچھا معاوضہ دیا بلکہ بروقت ادائیگی بھی کی۔ پھر مجھے ایک ہم جماعت عامر نے اپنا تھیسس ایڈیٹنگ کے لیے دیا۔ اس کے دیئے معاوضے میں مزید رقم شامل کر کے میں نے اپنا پہلا لیپ ٹاپ خریدا تھا۔

۔

جب میں نے بلاگ لکھنا شروع کیے تو حالات سے آگاہ رہنے کے لیے سیاحتی گروپوں میں بھی شمولیت اختیار کرنا پڑی۔ میں مصروف رہنے کے چکر میں متحرک رہا کرتی تھی۔ سیاحتی مقامات کی معلومات دینے کے باعث لوگ مجھے ٹرپ پلان کرنے کا کہنے لگے۔ ساجد بھائی (بہنوئی) نے بولا کہ کسی کو منع مت کرو، میں مدد کروں گا۔ پہلی مرتبہ انہوں نے کمرے وغیرہ بک کروا کے دیئے تھے۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

یہیں سے ایک سوچ نے سر ابھارا کہ جب اس کام میں ہاتھ ڈال دیا ہے تو ذرا ڈھنگ سے کروں۔ صفحہ بنانے کا معاملہ درپیش ہوا اور نام کی تلاش شروع کی مگر کوئی نام پسند نہ آیا۔ ایک دن آرٹیکل لکھتے لکھتے اچانک ایک نام سوجھ گیا۔ تحقیق کرنے پر علم ہوا، نواں نکور ہے۔ اس نام سے کوئی صفحہ یا کمپنی موجود نہیں تھی۔ یوں میں نے اپنا پہلا صفحہ تخلیق کیا۔

Travel With Me

پہلے پہل لوگ یہ صفحہ خریدنے میرے پاس آئے۔ میرے انکار پر کھمبیوں کی طرح یہ نام ہر طرف پھیل گیا۔ اب ہر دوسرا بندہ ٹریول ود فلاں بنا پھر رہا ہے۔

۔

میں نے صفحہ کے نام سے ہی ڈومین خریدنے کا فیصلہ کیا۔ (آگے چل کر میرا ارادہ ٹور کمپنی قائم کرنے کا تھا۔ لیکن رجسٹریشن کی درخواست دیتے ساتھ ہی ایف بی آر نے نوٹس بھیج کر یہ منصوبہ ملیا میٹ کر دیا۔) ڈومین کی قیمتیں پڑھ کر صحیح معنوں میں ہوش ٹھکانے آ گئے۔ بلکہ دانتوں پسینہ آ گیا۔ میرے نئے نویلے ارمان خاک میں مل گئے۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

سب سے سستی ڈومین بھی ۳۹ ہزار ڈالر کی تھی۔ یہ سن ۲۰۱۶ء کی بات ہے جب روپیہ اتنا بھی بے وقعت نہیں تھا۔ باقی جو نام بھی سوچے، سب قوتِ خرید سے باہر تھے۔ لے دے کر اپنا نام بچا تھا۔ سو اسی کو چار چاند لگانے کے لیے ڈومین خرید لی۔ اس پر ابتدائی کام ساجد بھائی (بہنوئی) نے کیا تھا۔ بعد میں اسفندیار (مون کا دوست) نے تکنیکی معاونت کی۔ پھر میں نے آج ہی کے دن یعنی ۱۱/۱۰/۲۰۱۶ کو باقاعدہ اس پر کام کا آغاز کیا تھا۔ چوں کہ میں نے صفر سے سیکھنا شروع کیا تھا، اس لیے بڑے پنگے کیے۔ متعدد بار ڈیش بورڈ غائب کیا۔ آخر ساجد بھائی نے سختی سے تنبیہہ کی، اب میں ریکور کر کے نہیں دوں گا۔ تب جا کے فہمی صاحب تھوڑا محتاط ہوئے۔

۔

میں نے ۲۰۱۷ء میں نیا صفحہ بنایا۔

The Fehmiolog

اس صفحے پر اپنی متفرق گروپوں میں اشتراک کی گئی ذاتی تحریریں ایک جگہ جمع کرنا مقصود تھا۔ چند دن بعد ایک سہیلی بوجھ پہیلی کے نہ چھپنے والے افسانے پر دل جلا تبصرہ کیا۔ نسیم بیگم عرف مینا کماری نے فرمایا، ”فہمی تمہارے اندر ادبیانہ جراثیم ہیں۔ تم خود کیوں نہیں لکھتیں؟“ لو جی ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، اس کی خدمت میں منظرنامہ لکھ کر پیش کر دیا۔ سب پہلے خوب ہنسے، پھر مزید لکھنے پر اکسایا۔ یوں میں نے اس منظرنامہ کی پچاس قسطیں لکھ ڈالیں۔ مجھے ادبی مجلوں میں تحریریں بھیجنے کے سنجیدہ مشورے ملنے لگے۔ اس کام میں نزہت اور شمائلہ جی پیش پیش تھیں۔ تاہم میں نے بہت بعد میں ان کی باتوں پر کان دھرے۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

اسی دوران ہانیہ نے کتاب گھر کے لیے لکھنے کی پیش کش کی۔ یوں میرا پہلا ناول مقیدِ محبت ۱۴ فروری ۲۰۱۹ء کو منظرِ عام پر آیا۔ ۲۰۱۹ء میں کرونا آ گیا اور میرا ٹور آپریٹنگ کا کام ٹھپ ہو گیا۔ میرا پہلا باقاعدہ افسانہ ماہنامہ کرن کے جون ۲۰۱۹ء کے شمارے میں چھپا تھا۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا اہم واقعہ تھا کیوں کہ یہ کرونا کے بعد پہلا شمارہ تھا۔ مترجم کہانیوں کے پیچھے تحریک شمائلہ دلعباد کی تھی۔ ان کے بقول، ”فہمی تم کہانی کو اس کی اصل روح کے ساتھ دوسری زبان میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔“ اور میں نے یہ معرکہ بھی مار لیا۔

۔

منظرنامہ کے علاوہ میں نے آپ بیتی کی طرز پر مختصر تحریریں لکھنا شروع کیں۔ بہت سے لوگوں نے مجھے بتایا کہ میری تحریر سے انہیں جینے کی تحریک ملی۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

جہاں زندگی تھوڑی سہل لگنے لے، وہیں لفڑا پڑ جاتا ہے۔ میں ۲۰۲۰ء میں لکھ رہی تھی۔ میرے پاس اچھا خاصا کام تھا۔ اس کے علاوہ ایک تھیسس تھا (ایک وقت میں ایک ہی تھیسس پر کام کرتی ہوں۔) بلاگ پر دوبارہ لکھنا شروع کیا تھا۔ پھر ایک رات اچانک میرا کندھا اتر گیا۔ مجھے سارا کام لوٹانا پڑا۔ میں کام مکمل کرنے کی حالت میں نہیں تھی۔ میری زندگی معمول پر آنے میں دس ماہ لگے۔ پچھلے سال یعنی ۲۰۲۲ء میں دوبارہ خود کو متحرک کرنے کی سعی کی۔ آنلائن کام میں بڑی قباحت ہے کہ ایک بار کام چھوڑیں تو صفر سے آغاز کرنا پڑتا ہے۔ خیر میرے پاس ایک تھیسس تھا تو کام چل گیا۔ میرے کلائنٹ کسی اور سے کم ہی مطمئن ہوتے ہیں۔ سو ان کی وساطت سے بھی تھیسس ملتے گئے۔

Zindagi Har Jeenay Walay Ke Paas Nahi Hoti

اس سال کے اوائل میں ایک ٹور کمپنی کے لیے لکھا۔۔۔ یہ کام کامیابی سے پایہ تکمیل تک پہنچا الحمدللہ۔

۔

دیکھیں…!! زندگی نے مجھے پچھاڑنے کی کوشش ضرور کی۔ میں کچھ وقت لڑکھڑائی، ڈگمگا کر ڈانواں ڈول ہوئی لیکن سنبھل گئی۔ میرے اندر مثبت سوچ جلد جنم لیتی ہے اور میں دوبارہ اٹھ کھڑی ہوتی ہوں۔

مشکلیں اب بھی ہیں، بہت ہیں۔۔۔ لیکن مجھے مشکلوں کو ہرانا آ گیا ہے۔

زندگی کبھی کسی کو آسان موقع نہیں دیتی (سوائے چند خوش نصیبوں کے)۔ راستہ دکھا کر مقابلے کے لیے اکساتی ہے اور لکا چھپی کا کھیل کھیلتی ہے۔ آپ نے خود راستوں کا تعین کرنا ہوتا ہے اور منزل کھوجنا پڑتی ہے۔ سب سے اہم چیز مایوس نہ ہونا ہے۔

رہا زندگی کا مقصد۔۔۔ بے کار مباش کچھ کیا کر، کپڑے ادھیڑ کر سیا کر۔۔۔

کپڑے سینے والا کام تو میں اب نہیں کر سکتی۔ (ہاتھ کی انگلیاں ٹیڑھی ہونے کی وجہ سے) مجھے منظم رہنا آ گیا ہے۔ میں بہت سے کام کرتی ہوں لیکن سارے کام اکٹھے نہیں کرتی۔ ایک وقت میں ایک کام اور بس پوری توجہ اس پر مرتکز ہوتی ہے۔ حتٰی کہ میں لوڈو بھی اتنے ہی انہماک سے کھیلتی ہوں۔ اب تک بلاگنگ، نظرِ ثانی (پروف ریڈنگ)، ترجمہ، تھیسس ایڈیٹنگ کر چکی ہوں۔ سماجی خدمت میں بساط بھر حصہ ڈالتی ہوں۔

املاء کی غلطیاں درست کرنا دل پسند مشغلہ تھا۔ مگر چند لوگوں کے برا ماننے پر اب تصحیح کرنا چھوڑ دی ہے۔ کچھ لوگ خود اصلاح کرواتے ہیں۔ وہ سب سلامت رہیں جو مجھے بھگتتے ہیں اور میری ڈانٹ ڈپٹ کو امرت سمجھ کر پی جاتے ہیں۔

فہمیدہ فرید خان

مورخہ ۱۱ اکتوبر ۲۰۲۳ء بروزِ بدھ

پہلا حصّہ) زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی)

دوسرا حصّہ) زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی)

تیسرا حصّہ) زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی)

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *