Home » Fehmiology Recounts » زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی (دوسرا حصہ)
زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی
زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی

زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی (دوسرا حصہ)

میری حالت ایسی ہو گئی تھی کہ میں بیٹھے بیٹھے رو پڑتی تھی۔ جو کھاتی، قے ہو جاتی یا معدے میں ایسا شدید درد اٹھتا کہ چیخ چیخ کر رونے لگتی تھی۔ پھر قے اور دست رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ڈرپ پہ ڈرپ لگنے لگی۔ میں ڈرپ لگانے اور کینولا اتارنے چڑھانے میں ماہر ہو گئی۔ کینولا کون سی رگ میں لگے گا اور کتنی دیر بعد ڈرپ اتار دینی ہے، یہ میں بخوبی جاننے لگی تھی۔ (پوری ڈرپ نہیں لگاتے تھے، میری کیفیت کے بہ مؤجب کم مقدار رکھتے تھے۔) شروع میں بھائی نشان لگا دیتے تھے کہ یہاں تک لگانی ہے۔ پھر میں خود اندازہ لگا لیتی تھی۔

۔

اس سب کے باوجود میری طبیعت خراب سے خراب تر ہوتی چلی گئی۔ میں تھوڑی دیر بعد کسی نہ کسی جگہ لڑھک جاتی تھے۔ ہمارے ڈاکٹر نے دیکھتے ہی کہہ دیا، اس کا خون کم ہو گیا ہے، تقریباً ۵.۴۔ یہ ڈاکٹر ابرار شاہ نے طبی معائنہ سے قبل زبانی بتایا تھا۔ ٹیسٹ کے بعد بالکل اتنا ہی نکلا۔

مون (بھائی) نے اپنے حلقہ احباب سے خون دینے کی استدعا کی۔ اس نے آزاد کشمیر یونیورسٹی میں خون کے عطیات جمع کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی تھی۔ میرے دونوں بھائی بھی خون عطیہ کرتے رہتے۔ اس وقت ۱۵۰ سے زائد افراد نے خون دینے کی ہامی بھری۔ ان میں بہت سے نامور اور معتبر لوگ شامل تھے۔ (امید کی کرن) مون نے بے ساختہ تبصرہ کیا، لوگوں سے خون دینے کا کہو تو غائب ہو جاتے ہیں۔ لیکن فہمی کے لیے فلاں فلاں بندے نے بھی بولا کہ میں دوں گا۔

مجھے تین پنٹ خون لگنا تھا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک اضطرابی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔ دو تین مرتبہ بھائی (ڈاکٹر بہنوئی) کو بھی شدید تشویش لاحق ہوئی۔ ان دنوں میں اکیلے رہنے سے ڈرتی تھی۔ گھر والے کہیں جانے کا کہتے تو مجھے جھرجھری آ جاتی۔ میرے بدن پر کپکپی طاری ہو جاتی کہ پیچھے مجھے جینے کے لالے پڑ گئے توووو۔ ان دنوں میں نے بہن بھائیوں کی بڑی دوڑیں لگوائی تھیں۔

۔

دوسری جانب معدے کا لفڑا ہنوز چل رہا تھا۔ پھر ڈاکٹر خواجہ ارشد کے پاس جانا پڑا۔ انہوں نے کیس ہسٹری جان کر معدے کے ساتھ مسکن دوائیں بھی دیں۔ ساتھ انہوں نے کچھ چیزیں کھانے پر پابندی لگا دی یعنی روٹی، دالیں (چنے، لوبیا وغیرہ) اور بھنڈی۔ خون لگنے کے بعد میں نے چائے از خود کم کر دی تھی۔ یوں یہ معاملہ بتدریج حل ہونا شروع ہوا۔

اچھا اس بیچ اشعر نے مجھے آن لائن لکھنے کی جانب راغب کرنے کی کوشش کی تاکہ میں زندگی جینے لگوں۔ اس نے میرے لیے بلاگ بنایا۔ اس پر میں نے مارے بندھے ایک مضمون لکھا اور چپ سادھ لی۔ دل میں سوچا، بھیا یہ میرے بس کا روگ نہیں۔

اضمحلال سے جینے کا دل نہیں چاہتا تھا۔ ایک طویل عرصہ وحشت میں گزار کے ایک دن خود کو خوب پھٹکارا۔

بی بی کہاں گئی آپ کی خوش امیدی اور خوش مزاجی؟

جینے کے لیے کیا کر رہی ہو؟ کرنا کیا چاہتی ہو؟

پھر خود کو ہلا شیری دینا شروع کی کہ کچھ کرنا چاہیئے۔ بہن بھائی پہلے ہی اس مشن پر تھے۔ الوینہ نے فیس بک اکاؤنٹ بنا دیا۔ بہن بھائیوں نے اپنے سارے دوست اس میں شامل کیے۔ فہمی صاحب نے چھوٹتے ہی تاکا جھانکی کر کے ناولوں والے گروپوں میں شمولیت اختیار کر لی۔ ساتھ گوگل پر دستیاب ناول اور کتابیں پڑھنا شروع کیں۔ بقول ہنی (بھائی) کے فہمی آپی نے گوگل پر کوئی ناول نہیں باقی نہیں چھوڑا۔ اس نے مفت طعنہ بھی دے مارا، ”اتنے ناول میں نے پڑھے ہوتے تو اپنا کم از کم ایک ناول لکھ چکا ہوتا۔“ اس پر میں نے سنجیدگی سے غور کیا تھا۔

۔

میں نے ایم اے لسانیات میں داخلہ لے لیا تھا۔ لیکن پڑھنے میں دل نہیں لگتا تھا۔ بیماری کے دوران یادداشت بہت متاثر ہوئی تھی۔ پھر سوچا کچھ ایسا کرنا چاہیئے جس سے مصروفیت ملے اور میں متحرک بھی ہو جاؤں۔ مگر کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔

ایک دن میں کسی کام سے کمرے میں گھسی۔ سامنے پڑے اون کے گولے پر نظر ٹک گئی۔ غائب دماغی سے اسے تکتے ہوئے فلسفہ ذہن میں چکرانے لگا۔ ایک سویٹر جیسے جیسے مکمل ہوتا جاتا ہے، دوسری طرف بننے کا کام تکمیل کے مراحل طے کرتا جاتا ہے۔۔۔ بالکل زندگی کی ظرح، عمر بڑھتی جاتی ہے لیکن زندگی کی مدت کم ہوتی جاتی ہے۔ جھپٹ کر گولہ اٹھایا اور سلائیاں ڈھونڈ کر نکالیں۔ گول کمرے کی فرشی گدی پر بیٹھ کر تسلی سے یوٹیوب کھولی اور لکھا۔۔۔

Baby Booties

کچھ سمجھے آپ کہ میں کیا کرنے جا رہی تھی؟

جاری ہے۔

فہمیدہ فرید خان

اکتوبر ۱۱، ۲۰۲۳ بروزِ بدھ

پہلا حصہ پڑھیے زندگی ہر جینے والے کے پاس نہیں ہوتی

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *