Home » Kashmir » بلتت قلعہ | کریم آباد | ہنزہ | گلگت بلتستان

بلتت قلعہ | کریم آباد | ہنزہ | گلگت بلتستان

بلتت قلعہ، کریم آباد، ہنزہ گلگت بلتستان

بلتت قلعہ سات آٹھ سو سال پرانا ہے۔ پاکستان کے شمال میں موجود گلگت بلتستان کے شہر ہنزہ میں موجود قلعہ آج بھی خوبصورتی کی اعلٰی مثال ہے۔ اس پر شکوہ عمارت کے پچاس ساٹھ سے زائد کمرے و دروازے گواہ ہیں کہ یہ اپنے وقت کا عروج و زوال دیکھ چکا ہے۔

.

بے شک زیادہ پرانی بات نہیں، 1945 کا ذکر ہے۔ اس وقت ہنزہ کے حکمران راجا میر کہلاتے تھے۔ یہ قلعہ ان کے زیرِ استعمال رہتا تھا۔ 45 میں آخری میر یہ قلعہ چھوڑ کر ذاتی محل میں منتقل ہو گیا۔ میر نام اعزازی طور پہ اج بھی ہنزہ میں موجود ہے۔ خیر، آخری میر نے جب یہ تین منزلہ قلعہ حکومتِ پاکستان کو دیا تو وہ اس کی دیکھ بھال کرنے سے معذور رہی۔ نتیجے میں اسے آغا خان ٹرسٹ کے حوالے کردیا گیا۔ انہوں نے پانچ چھ کروڑ کی لاگت سے بہتر کر کے اسے تاریخی ورثہ قرار دے دیا۔ پھر اسے باقاعدہ طور بلتت ہیرٹیج ٹرسٹ کے حوالے کر دیا۔

اگر اپ کو تاریخ اور ثقافت کا ذرا بھی شوق ہے تو یہ ایک بہترین جگہ ہے۔ ہنزہ کے مشہور زمانہ، کریم آباد کے بازار سے کچھ منٹ کی چہل قدمی کر کے اس قلعے تک آ سکتے ہیں۔ جیپ گاڑی یا لفٹ تینوں چیزیں مل سکتی ہیں۔ واپسی لازمی پیدل کریں کیونکہ کریم آباد بازار بھی قدیم اور دیکھنے لائق ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مقامی سے زیادہ انگریز لوگ آپ کو ملیں گے۔ انہی کی وجہ سے مارکیٹ ہم مقامی افراد کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے۔ خیر آپ ہماری طرح دیکھ کے لطف اندوز ہو لیں۔ مقامی ملبوسات، روایتی ساز و سامان خصوصاً گلگتی ٹوپی و زیورات۔

.

قلعہ تک جانے کا راستہ نہایت دلکش ہے۔ معمولی سی فیس دے کے آپ زمانے پہلے کی فضاء جی سکتے ہیں۔ اس کا کیئر ٹیکر بھی اپنی مونچھوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس کا اخلاق بھی عمدہ ہے۔ ٹکٹ لینے بعد آپ کے ہمراہ کوئی نہ کوئی گائیڈ آ جاتا ہے جو قلعے کی تاریخ بتاتا ہے۔ ہمارے ساتھ بدقسمتی سے اوقاتِ کار کا مسئلہ ہو گیا تھا۔ اس لیے گائیڈ کا ساتھ تھوڑی دیر ہی میسر رہا۔ اس وقت میں بس بھاگم بھاگ تصویریں کھنچوا کے ہر ممکن حد تک قلعہ دیکھا۔

بلتت قلعے میں آج بھی ہنزہ کے میر اور رانیوں کے ملبوسات حفاظت سے رکھے ہوئے ہیں۔ ہتھیاروں کے علاوہ روزمرہ استعمال کا سامان، برتن اور تحائف وغیرہ کی تصویریں۔ کچھ آلاتِ موسیقی اور سب سے دلکش چیز، اس زمانے کے باورچی خانے کا پورا سامان ترتیب سے رکھا ہوا ہے۔ وہ آج بھی ویسا ہی ہے اور استعمال کے قابل بھی ہے۔

.

قلعہ بلتت میں لکڑی کا بہت ہی عمدہ کام کیا گیا ہے۔ چھوٹے دروازے، سیڑھیوں سے تہہ خانے کی جانب جاتا راستہ، دلکش لکڑی کی کھڑکیاں اور ان سے جھانکا ہنزہ۔۔۔ یہ سب پہاڑوں کی بلندیوں سے گھرا ہوا ہے۔ شنید ہے اس قلعے میں موجود قیدیوں کو موت کی سزا، نیچے پھینک کے دی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ دشمن بھی قلعہ پہ حملہ کرنے سے پہلے دس بار سوچتا ہو گا۔ یقیناً سوچ سمجھ کے یہ جگہ چنی گئی تھی۔ہمارے لیے اچھنبے کی بات یہ تھی، اس کی بناوٹ کچھ اس طرح ہے کہ 8 اعشاریہ زلزلہ بھی اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچا پاتا۔ حالانکہ یہ قلعہ ہے بھی پہاڑ پہ۔ مگر اگلے وقت کے لوگوں کو کیا معلوم تھا بھلا۔۔۔ اتنا تام جھام کرکے بھی وہ ہمیشہ نہیں رہ پائے۔

ویسے اگر آپ کے پاس کچھ دنیا کی خبریں موجود ہوں تو آپ اس پر شکوہ قلعے کی تعمیر میں تبتی شہر لاسا میں موجود قلعہ پوٹالہ کی جھلک محسوس کر سکتے ہیں۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بادشاہوں کا مزاج ہر جگہ تقریباً ایک ہی جیسا رہتا ہے۔

عمارہ خان

About Ammarah Khan

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *