Home » Current Affairs » زلزلہ _ حصہ دوم
زلزلہ حصہ دوم
زلزلہ حصہ دوم

زلزلہ _ حصہ دوم

زلزلہ والے دن بڑے بھائی کو یونیورسٹی سے چھٹی تھی۔ وہ ہفتہ کے دن سروس کروانے کے لیے عدالت سے گاڑی لے آتا تھا، بعد میں ابا کو پک کر لیتا تھا۔ ابھی وہ کشمیری بازار میں داخل ہوا ہی تھا کہ گڑگڑاہٹ شروع ہو گئی۔ اس نے یکدم باہر گلی سے باہر چھلانگ لگا دی۔ آپس میں گلے ملتی عمارتیں، اس کے دیکھتے دیکھتے لمحوں میں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ اڑتی پڑتی اینٹیں لگنے سے اس کی کمر اور ٹانگ زخمی ہو گئی تھی۔
میری ایک بہن اسکول میں پڑھاتی تھی۔ مہینہ کا آغاز تھا وہ فیسیں جمع کر رہی تھی۔ جونہی جھٹکے لگنا شروع ہوئے، اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ گھر کی طرف بھاگ پڑی۔ جب وہ ہمارے پاس پہنچی تو فیس کارڈز اس کے ہاتھ میں تھے اور پیسے جانے کہاں گر چکے تھے۔ بدحواسی کا عالم یہ تھا کہ جو بھی واپس آتا، پہلے پوچھتا، فہمی کدهر ہے؟ میری وہیل چیئر پکڑے سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے۔ میں ان کو کہے جا رہی تھی میں یہاں ہوں اور بالکل ٹھیک ٹھاک ہوں مگر ان کو یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔ یقین آتا بھی کیسے، جب انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے سینکڑوں ہٹے کٹے لوگوں کو لقمہ اجل بنتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں پھر بھی معذوری کا شکار تھی۔ بہرحال بھائی اسی زخمی حالت میں بھاگتا بھاگتا آیا۔ سڑک کے موڑ سے آواز دے کر سب کی خیریت پوچھی۔ جب اسے چھوٹی بہن کا پتہ چلا کہ وہ ابھی تک کالج سے نہیں پہنچی تو وہیں سے پلٹ گیا۔ وہ بہن کو کالج سے لے کر آ رہا تھا جب راستے میں اسے ریاب ملا۔ سڑک کے موڑ پر بہن کو چھوڑ کر وہ یونیورسٹی کی طرف دوڑ گئے۔یونیورسٹی مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ جیالوجی سمیت چند شعبہ جات میں ہفتے کو تعطیل نہیں ہوا کرتی تھی۔ جیالوجی یونیورسٹی کا سب سے بڑا شعبہ تھا اور طلباء کی ایک بڑی تعداد شہید ہو چکی تهی۔ پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں میں بھی قیامت صغریٰ برپا تھی۔ خصوصاً پائلٹ اسکول اور رضوان اسکول کے طلباء کی اکثریت جاں بحق ہو چکی تھی۔
ابا نے سب کو صلاح دی پیچھے چوہدری بوستان کے صحن میں چلتے ہیں، جو ایک کھلی جگہ تھی۔ جس جگہ ہم تھے وہ پہاڑی کے نکڑ پر تھی اور زیادہ محفوظ نہیں تھی کیونکہ مسلسل زلزلے کے جھٹکے آ رہے تھے اور کسی وقت بھی منہدم ہو سکتی تھی۔ آپ یقین نہیں کریں گے جب ہم پچھلے میدان میں پہنچے تو بعینہ وہی مناظر دیکھنے کو ملے جو میں مسلسل خواب میں دیکھتی آ رہی تھی۔ اس سے قبل کسی کی موت کی خبر سنتے ہی مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا مگر اس روز مجھ پر عجیب سی بے حسی طاری ہو گئی تھی یا شاید اس سانحے کے زیرِ اثر اعصاب شل ہو چکے تھے۔ زخمیوں اور لاشوں کو وہیں لایا جا رہا تھا۔ ہمارے اردگرد بے شمار لاشیں تھیں اور لاتعداد زخمی۔ گھروں کے گھر اجڑ گئے تھے مگر ان کو دفنانے والا کوئی نہیں تھا۔ بے گور و کفن لاشیں نوحہ کناں تھیں۔ اسپتال ملبے کی صورت اختیار کرنے باوجود زخمیوں سے اٹے پڑے تھے۔ میرے بڑے بہنوئی ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے صرف برمودہ پہنا ہوا تھا اور ننگے پاؤں تھے۔ اسی حالت میں وہ اپنے بھائی کے بچوں کی خیریت پوچھنے شوکت لائن گئے اور وہاں سے طبی سامان مل جانے کی امید پر سی ایم ایچ، جو ملبے کا ڈھیر بن چکا تھا لیکن ڈاکٹرز کے جذبے کا یہ عالم تھا کہ اپنے پیاروں کو کھو کر بھی پرعزم تھے۔ انہوں نے رہائشی کالونی میں آوازیں لگا کر چیک کیا، شاید کوئی زندہ ہو لیکن جب کوئی امید کی کرن نہ ملی تو بولے، لگتا ہے کوئی نہیں بچا، چلو زخمیوں کو دیکھتے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے ملبہ ہٹا کر ادویات برآمد کیں اور آپس میں بانٹ لیں۔ یوں اسی ملبے کے ڈھیر سے اولین امدادی کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ بہنوئی واپس آئے۔ ان کے پاس ایک ٹوٹی پھوٹی بالٹی میں ادویات تھیں لیکن پٹیاں ندارد۔ انہوں نے وہاں موجود سب مردوں سے مدد کی درخواست کی اور ان کی قمیصوں کے دامن کاٹ کاٹ کر ان سے مرہم پٹی کا کام لیا۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ تمام مواصلاتی اور زمینی رابطے منقطع ہو چکے تھے۔ بیرونی علاقوں سے مدد مانگنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ کسی کو کچھ خبر نہ تھی کہ باقی علاقوں کے کیا حالات ہیں۔ اسی اثناء میں میرے ماموں آتے دکھائی دیئے، وہ ”آج نیوز“ سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیٹیلائٹ فون کے ذریعے اسلام آباد اطلاع کر دی گئی ہے۔
مجھے بیحد پیاس لگ رہی تھی مگر گھروں کے اندر کوئی نہیں جا سکتا تھا۔ وہاں بارش کے پانی کا ایک گندا سا جوہڑ تھا۔ میدان کے ساتھ آگے چند دکانیں تھیں۔ ایک دکاندار نے کہیں سے سٹیل کا گلاس لا کر دیا اور میں نے وہی پانی پی لیا۔ ایک دکاندار نے اپنی دکان سے بچوں کو بسکٹ اور جوس کے پیکٹ لا کر دیئے۔ مجھے بھی ایک پیکٹ تھما دیا گیا جوس سمیت۔
تھوڑی دیر بعد ہم سب میدان سے اٹھ کر ایک سابق ڈپٹی اسپیکر اسمبلی کے صحن میں آن بیٹھے۔ ماموں نے ان کے گھر والوں سے ٹیلیفون منگوا کر رابطہ بحال ہونے کی امید پر چیک کیا۔ زلزلے کے جھٹکوں میں جان ہتھیلی پر رکھ کر فون باہر لایا گیا جو کچھ دیر بعد کام کرنے لگ پڑا۔ رابطہ بحال ہوتے ہی ماموں نے سب سے پہلے اپنے چینل والوں کو فون کر کے صورتحال سے آگاہ کیا۔ پھر باقی لوگوں نے جہاں جہاں ممکن ہوا، اطلاع دینے کی کوشش کی۔ بہنوئی کے والد صاحب (ہمارے خالو) اسلام آباد میں مقیم تھے۔ انہوں نے بتایا ٹی وی پر صرف سپریم کورٹ کی عمارت گرنے کی خبر چل رہی ہے۔ جب ان کو بتایا گیا پورا علاقہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے تب ان کو صحیح معنوں میں تشویش لاحق ہوئی۔ ماموں کی فون کال کے تقریباً پندرہ منٹ بعد فضا میں ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوا۔ اس نے شہر کا فضائی جائزہ لیا اور واپس ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ہیلی کاپٹرز کا تانتا بندھ گیا۔ کچھ وقت گزرا تو پاکستان کی جانب سے امدادی کاروائیاں شروع ہو گئیں۔ زخمیوں کو اسلام آباد اور دیگر محفوظ علاقوں کی طرف منتقل کیا جانے لگا۔ زخمیوں کی باقاعدہ درجہ بندی کر کے شدید زخمیوں کو پہلے بھیجا جا رہا تھا۔
ماموں نے ابا اور بہنوئی سے کہا، سڑکوں سے ملبہ ہٹایا جا رہا ہے۔ میں جا کر خیموں کا بندوبست کرتا ہوں۔ سب چھتر چلتے ہیں۔ عندیہ لیتے ہی وہ پیدل واپس چلے گئے۔ ابا کی گاڑی عدالت کے احاطے میں ہی کھڑی رہ گئی تھی اور اس کو لانے کا فی الوقت کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ لے دے کر بہنوئی کی کار ہی تھی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ وہ دو چکروں میں گھر والوں کو چھتر لے جائیں گے۔ اس سانحے میں چھتر تباہ ہونے سے بچ گیا تھا۔ دریائے نیلم کی ایک جانب بہت تباہی ہوئی تھی جبکہ دوسری سمت نسبتاً محفوظ رہی تھی، گو کہ جھٹکے ادھر بھی زوردار آ رہے تھے مگر نقصان زیادہ نہیں ہوا تھا۔ زلزلے کے جھٹکوں جونہی تھوڑا وقفہ آتا تو کوئی نہ کوئی بھاگم بھاگ ضروری اشیاء لے آتا۔۔۔ اوڑھنیاں، جوتے اور کمبل وغیرہ۔۔۔ شام کے وقت ہم روانہ ہوئے۔ مجھے پہلی باری میں بہنوں اور بچوں کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ ابا، اماں، ایک بہن اور ہنی پیچھے رہ گئے۔ اس دن سفر بہت لمبا محسوس ہوا تھا حالانکہ بمشکل بیس پچیس منٹ کا راستہ تھا۔ چھتر پہنچ کر ہم زمین پر ہی بیٹھ گئے۔ گھروں کے اندر کوئی بھی جانے کو تیار نہیں تھا۔ بہنوئی نے باقیوں کو لانے کے لیے گاڑی موڑی مگر تھوڑا آگے جا کر رک گئی۔ پتا چلا پٹرول ختم ہو گیا ہے۔ وہاں کے رہائشیوں سے مانگا مگر کوئی بھی مدد کرنے کو تیار نہ ہوا۔ لوگ آئندہ حالات سے خوفزدہ تھے۔ ابھی ایک ہی خیمہ نصب ہوا تھا کہ موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ مجھے خواتین اور بچوں سمیت خیمے میں بھیج دیا گیا۔ افطاری کے بعد سب نے مل ملا کر کھانا بھی بنا لیا۔ پیٹ کی آگ بھی ٹھنڈی کرنا تھی۔ رات دس بجے ایک میجر صاحب نے ماموں کی درخواست پر سات لیٹر پیٹرول بھجوایا، اللہ ان کو جزائے خیر دے۔ گاڑی میں پٹرول ڈال کر بھائی نکلنے والے تھے کہ ابا کے دوست کی گاڑی ان کو لے کر آ گئی۔ سب نے شکر ادا کیا۔ ماموں کے برادر نسبتی نے کہیں سے ایک چارپائی برآمد کر کے ابا کو دی۔ وہ اور بچے چارپائی پر اور ہم سب پتھریلی جھاڑی دار جگہ پر ترپال ڈال کر پڑ گئے۔ رات آنکھوں میں کٹی۔ جھٹکے مسلسل آ رہے تھے اور جھاڑیاں بھی بدن میں کھبی جا رہی تھیں۔ سب رشتہ دار گاؤں میں تھے سو وہاں کی فکر بھی دامن گیر تھی۔ رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ سڑکیں بھی بند ہو چکی تھیں۔ اگلے دن کہہ سن کر ہیلی کاپٹر کے ذریعے امدادی سامان بھجوایا گیا مگر خیر کی خبر پھر بھی نہ ملی۔ ہیلی کے اترنے کی جگہ ندارد تھی۔ دوسرے یا تیسرے دن کچھ لوگوں کی آمد سے معلوم ہوا کہ میری دو خالاؤں، دو پھوپھی زاد بہنوں سمیت سینکڑوں رشتہ دار شہید ہو گئے ہیں۔ نانی اماں چھوٹے ماموں کے پاس تھیں، ان سے یہ خبر کسی طور چھپا لی گئی مگر وہ زلزلے کے دن سے کہہ رہی تھیں مجھے پتہ ہے، کچھ نہیں بچا۔ خاص طور پر جب اماں مرحومین کے ایصال ثواب کے لیے دعا کرواتیں تو وہ مزید مشکوک ہو جاتیں۔ بڑے ماموں کو شدید زخمی حالت میں گاؤں سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد پہنچا دیا گیا تھا۔
پہلا دن وہیں سڑک کے کنارے خیموں میں گذارا، پھر ماموں کے برادر نسبتی کے صحن میں خیمے لگا لیے۔ سب لوگ امدادی کارروائیوں میں مقدور بھر حصہ لے رہے تھے۔ دوسرے دن منظم بنیادوں پر کام شروع ہوا۔ مختلف چینلز والے بھی ماموں کے گھر آ براجمان ہوئے۔ ان میں سے بیشتر کو ہم جانتے تھے۔ کچھ نئے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی۔ ریکارڈنگ کے وقت ہم بنفس نفیس دیکھ رہے ہوتے تھے۔ مشاق منہاس، طلعت حسین، اقبال حسین، کرن فلٹن {جارج فلٹن کی اہلیہ/جارج کا پاکستان فیم) اور بہت سے دوسرے آتے جاتے ہم سے گپ شپ بھی لگا لیتے تھے۔ انہوں نے میری نانی اماں کے لیے ایک ڈاکیومینٹری بھی بنائی تھی، جس کا نام شاید ”مریم کا سفر“ تھا۔ مریم میری نانی اماں کا نام ہے اور یہ ڈاکیومینٹری زلزلے کے بعد ان کے گاؤں کے سفر پر بنائی گئی تھی۔ ہماری گاڑی کو رسیوں سے باندھوا کر انہی صحافیوں اور میرے بھائیوں کے دوستوں نے اتروایا تھا۔ ابا کی لائبریری کی بہت سی کتب کو بچا لینے میں بھی ان کا بڑا ہاتھ تھا۔
ان دنوں ہمارا کام دن رات فہرستیں مرتب کرنا، امدادی سامان کی چیکنگ کرنا کہ کون سے علاقے میں کن اشیاء کی زیادہ ضرورت ہے۔ خیمے، راشن، ادویات، کمبل اور ضروریات زندگی کا ریکارڈ مرتب کرنا۔ لوگ آتے، اپنے اپنے علاقوں کی فہرستیں دے کر سامان لے جاتے تھے۔ میرا کام سب فہرستوں کو ترتیب اور حفاظت سے رکھنا تھا۔ ساتھ ساتھ ضروری معلومات رکھنا کہ امدادی سامان کون سا آیا، کون لایا، کتنا رہ گیا اور کون سی چیزیں کم رہ گئیں۔ ماموں کیونکہ رپورٹنگ کرنے جاتے تھے تو سب فہرستیں میرے پاس ہوتی تھیں۔
بچوں کو ان دنوں ایک نیا مشغلہ ہاتھ لگا تھا یعنی وہ پگڈنڈی پر بیٹھ کر نیچے اسمبلی گراؤنڈ میں بنے ہیلی پیڈ پر امدادی سامان لے کر آنے اور زخمیوں کو لے کر جانے والے ہیلی کاپٹر گنتے رہتے تھے۔ ان کو مزیدار مصروفیت ملی ہوئی تھی اور ہمیں ان کے ذریعے اچھی خاصی معلومات مل جاتی تھیں۔ کبھی کبھی ہم امدادی کیمپوں کی صورتحال کا جائزہ لینے بھی چلے جاتے تھے جس کی وجہ سے غیر ملکیوں سے ملنے کا بہت مواقع ملے۔ ابا اور مون میرپور کا ایک چکر لگا آئے تھے کیونکہ حالات سنبھلنے تک وہاں منتقل ہونے کا ارادہ بن رہا تھا۔ وہاں کوئی گھر خالی نہیں ملا تھا۔ ابا کے دوست نے اپنا ایک خالی فلیٹ دیا جو تیسری منزل پر تھا۔ آمد و رفت کا واحد ذریعہ سیڑھیاں تھیں۔ میری وجہ سے سب متذبذب تھے مگر غنیمت تھا سر چھپانے کو جگہ مل گئی تھی۔ اسی دوران عید آئی اور گذر گئی۔ زندگی تھوڑی معمول پر آتی جا رہی تھی۔ پندرہ نومبر کو ہم میرپور چلے گئے۔ دو دن ابا کے انہی دوست کے گھر رہے جنہوں نے دوستی کا حق ادا کر دیا۔ دو دن میں فلیٹ صاف کر کے سیٹ کیا اور ہم وہاں منتقل ہو گئے۔ اگلے ساڑھے چار سال ہم نے وہیں اسی فلیٹ میں گذارے۔ مظفرآباد میں رہنے کو کٹیا بھی نہ تھی، بہن بھائیوں کی تعلیم کا مسئلہ بھی تھا۔ ابا نے جب وہاں نئے سرے سے وکالت شروع کی۔ ان کے پاس کالا کوٹ تھا نہ چیمبر۔ ذوالفقار انکل نے ہی اپنا چیمبر ان کو دیا۔ مون لوگوں کا کیمپس بحریہ یونیورسٹی اسلام آباد میں منتقل ہو گیا تھا اور ہنی آرمی سکول منگلہ جانے لگا تھا۔ زندگی پھر سے رواں دواں تھی مگر اپنے پیاروں کو آخری وقت نہ دیکھ سکنے کی کسک اب بھی تڑپاتی ہے۔
تحریر: فہمیدہ فرید خان
#Fehmiology
#FFKhan
# FFK
Part 1 b

http://www.fehmeedakhan.com/2005-%D8%B2%D9%84%D8%B2%D9%84%DB%81/

About FFK

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

22 comments

  1. Terrific article! This is the kind of info that are meant to be shared across the web. Disgrace on the search engines for now
    not positioning this put up higher! Come on over and discuss with my website. Thanks =)

  2. Howdy! Looking at this article reminds me of my previous roommate! He continually kept preaching about this.
    I most certainly will send this article to
    him. Fairly certain he’ll have a very good read. Thank you for sharing!

  3. whoah this blog is wonderful. I really like
    studying your articles. Keep up the great work! You know, a lot of persons are searching round for this information, you can help them greatly.

  4. You have made some good points there. I looked on the net for additional information about the issue and found most people will go along with your views on this website.

  5. Howdy! Someone in my Facebook group shared this website with us so I came to look it over. I’m definitely enjoying the information. I’m bookmarking and will be tweeting this to my followers! Fantastic blog and terrific style and design.

  6. hello there and thank you for your info. I’ve
    definitely picked up something new from right here. I did however expertise some technical issues using this site, as I experienced to reload the web site many times previous to I could get it to load correctly. I had been wondering if your web hosting is OK?
    Not that I’m complaining, but slow loading instances times will sometimes affect your
    placement in google and can damage your high-quality score if ads and marketing with Adwords. Anyway I am adding this RSS to my e-mail and could look out for a lot more of
    your respective fascinating content. Make sure you update this again very soon.

  7. Keep on writing, great job!

  8. Thanks a ton for sharing this amazing webpage.

  9. It’s remarkable designed for me to have a website, which is valuable in favor of my know-how.
    thanks admin

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *