
پاکستان کے قیام اور ہجرت کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو عموماً ہم مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کا ذکر ہی سنتے ہیں۔ کیسے انہیں وہاں سے سب چھوڑ کر بے سروسامانی کے عالم میں آنا پڑا۔ ان پر ڈھائے گئے مظالم یقیناً الم ناک تھے۔ مگر ہم اکثر یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس طرف سے جو لوگ ہندوستان گئے ان پر بھی ظلم کیا گیا۔ انہیں بھی قتل و غارت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انہیں بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر ایک اجنبی دیس جا کر بسنا پڑا تھا۔ ملک بدر ہونا پڑا تھا۔ مگر ان کے دلوں میں آج بھی اس ملک سے محبت ایک کسک بن کر زندہ ہے۔
.
زرد پتوں کی بہار ایک منفرد سفر نامہ ہے۔ عام طور پر سفر نامہ کسی نٸ جگہ کے بارے میں ہوتا ہے مگر یہاں رام لعل ایک پرانی یاد کو دوبارہ جینے آئے ہیں۔ رام لعل تیس پینتیس سال بعد پاکستان دوبارہ آتے ہیں۔ ریلوے اسٹیشن پر ریل گاڑی سے قدم باہر رکھتے ہی یادوں کی پٹاری کھل جاتی ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں انہوں نے پہلی ملازمت شروع کی تھی۔
سب کچھ وہیں تھا بھی اور نہیں بھی۔ سب کچھ ویسا ہی تھا اور بہت کچھ بدل بھی گیا تھا۔ مگر ایک چیز جو نہیں بدلی تھی وہ تھی دوستوں کی محبت۔ پرجوش استقبال سے لے کر دورانِ قیام ملنا ملانا اور دعوتوں کے سلسلے رہے۔ پھر جہاں دوست ہوں وہاں قہقہے تو لازم ہیں۔ رام لعل کے دوستوں میں قد آور ادبی شخصیات شامل ہیں۔ زرد پتوں کی بہار کی بدولت ان کا نیا روپ دیکھنے کو ملا جو کہ دلچسپ رہا۔
.
رام لعل نے اپنے قیام کے دوران مختلف شہروں کا دورہ کیا جن میں اپنے آبائی شہر میانوالی کا قصہ سب سے دل سوز ہے۔ اپنے آبائی گھر کی یاترا کی جہاں اب اجنبی لوگ بستے ہیں۔ گھر کا نقشہ بہت حد تک تبدیل ہو چکا ہے مگر اس کی مٹی کی خوشبو اب بھی ویسی ہی ہے۔ وہ لمحہ بہت دل گرفتہ کر گیا جب رام لعل نے کہا کہ اس نسل کا میں آخری فرد ہوں جو اس گھر سے دلی وابستگی رکھتا ہے۔ وہ گھر جہاں ان کے باپ دادا رہے۔ آخر میں اس صحن کی تھوڑی سی مٹی ایک قیمتی متاعِ حیات کی طرح لے کر واپس لوٹ گئے۔
زرد پتوں کی بہار وطن سے وطن تک کا سفر ہے۔ جو اپنے اندر محبت، دوستی، غم اور خوشی کو بہت خوبصورتی سے سموئے ہوئے ہے۔ یہ یقیناً ایک دل کو چھو لینے والی کتاب ہے۔ اسے ضرور پڑھیے۔
سدرہ جاوید کا گزشتہ تبصرہ