دل دیا دہلیز | رفعت سراج | اردو تبصرہ

دل دیا دہلیز از رفعت سراج میں روتا رہا چپ چاپ بس اشک سناتے رہے داستاں میری رفعت سراج کے پرانے ناول جیسے جیسے پڑھتا جا رہا ہوں، یقین نہیں آتا کہ امانت اور بری عورت جیسے ناول بھی رفعت سراج کے قلم سے نکلے ہیں۔ شہر یاراں، شاہکار، دل دریا تن صحرا اور اب دل دیا دہلیز۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ناول اور زیرِ تصویر ناول تو کمال است۔ کیا خوب لکھا رفعت سراج نے۔ تیس سال پرانی کہانی آج بھی پڑھتے ہوئے وہی وقت آنکھوں کے سامنے گھوم سا جاتا ہے۔ . پچھلے سات سال سے دل…
آبان احمد کا تبصرہ

تبصرۂ کتب

دل دیا دہلیز از رفعت سراج

آبان احمد کا تبصرہ

User Rating: 4.02 ( 2 votes)

دل دیا دہلیز از رفعت سراج

میں روتا رہا چپ چاپ بس

اشک سناتے رہے داستاں میری

رفعت سراج کے پرانے ناول جیسے جیسے پڑھتا جا رہا ہوں، یقین نہیں آتا کہ امانت اور بری عورت جیسے ناول بھی رفعت سراج کے قلم سے نکلے ہیں۔ شہر یاراں، شاہکار، دل دریا تن صحرا اور اب دل دیا دہلیز۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک ناول اور زیرِ تصویر ناول تو کمال است۔ کیا خوب لکھا رفعت سراج نے۔ تیس سال پرانی کہانی آج بھی پڑھتے ہوئے وہی وقت آنکھوں کے سامنے گھوم سا جاتا ہے۔

.

پچھلے سات سال سے دل دیا دہلیز میری کتابوں میں شامل اپنی قسمت پر نوحہ کناں تھا۔ لیکن حقیقت ہے جس کا جب وقت ہوتا تب ہی پڑھا جاتا ہے۔ کہانی اتنی پیاری، بنت، منظر نگاری، کردار نگاری، حویلی کا منظر، پچھلی کوٹھڑیوں کی منظر نگاری سب ہی بہت شاندار لکھا۔ 49 اقساط اور 980 صفحات کے ناول نے کہیں بھی دلچسپی کا عنصر کم نہیں ہونے دیا۔

دل دیا دہلیز ایک ضخیم ناول ہے۔ ناول طویل ہے اس لیے رفعت سراج نے ہر کردار کا پسِ منظر اور اس کی کہانی کو تفصیلی واضح کیا ہے۔ اس سے ناول میں ہر کردار کی سوچ اور نفسیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک طرف تو ناول کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں، وہیں کرداروں کی ضرورت کو بھی واضح کرتے ہیں۔

.

دل دیا دہلیز جہاں تفصیلی ہے، وہیں بہت گہرائی میں لکھا گیا ہے۔ واقعات کا تسلسل، تجسس، مکالمے بھی خوب ہیں۔ نوے کی دہائی میں لکھا گیا یہ ناول ایک شاہکار ہے۔ کئی اقتباسات اور کرداروں کا آغاز و انجام، بچوں کی تربیت میں معاون ثابت ہوں گے۔

اکثر ایسا ہوتا ہے ہم خود کو مثبت کردار سے نتھی کر لیتے ہیں۔ لیکن مجھے جس کردار نے اپنی طرف کھینچا، وہ مظلوم نہیں ظالم کردار تھا۔ مطربہ، اس کردار نے مجھے بہت افسردہ کیا۔ کیسی خوبصورت جوانی تھی، کیا خوب جوانی کو برتنے کا انداز تھا اور اففف کتنا درد ناک انجام ہوا۔ دل دیا دہلیز میں انا کی، مجبوریوں کی، کرب کی، سازشوں کی، بے اعتباریوں کی، خود غرضی کی، اپنے دل کا سوچنے اور محبت میں لا حاصل و نارسائی کی داستاں رقم ہے۔

.

دیا دیا دہلیز کہانی تھی دو سگے بھائیوں کی غیرت کی، جنہیں مطربہ کے دل نے اس موڑ پر لا کھڑا کیا کہ وہ ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی گئے… کہانی کچھ یوں ہے دریا بستی میں دلاور علی خان اور ان کے بچے رہتے ہیں۔ یہاں ان کی زمین و جائیداد ریاست وغیرہ ہے۔ دلاور علی خان سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ بابا صاحب کی کئی جائیدادیں تھیں کیوں کہ دریا بستی اور سرائے کی ریاست ہی ان کی ہے۔ ایک حویلی سرائے میں ہے، ایک دریا بستی میں۔ ایک بنگلہ سیون سی کراچی میں بھی ہے۔

دل دیا دہلیز کی دریا بستی والی بڑی ساری حویلی میں دلاور خاناں (بابا صاحب) کی بیگم اماں جی، ان کے چار بیٹے شبیر خان (بڑے ابا)، یاور علی خان، بصیر خان (چچا جان)، تیمور علی خان (کاکا جان)، بیٹیاں رئیسہ، تزئین، روشن آراء، بصیر کی بیگم عالم تاب (دلاور خاناں کی سگی بھتیجی)، یاور کی بیگم نازنین (جس کا جوانی میں انتقال ہو گیا تھا) یاور خاناں نے دوسری شادی نہیں کی۔ بصیر کی دلہن ارجمند چچی جو اتنے سال گزرنے کے بعد بھی بصیر کی دلہن ہی ہیں۔

.

سب سے چھوٹے تیمور سرائے والی حویلی میں رہتے ہیں۔ ان کی بیگم غیر ملکی ہیں اور کسی سے نہیں ملتیں۔ بابا صاحب کی بیٹیاں بھی اپنے اپنے شوہروں کے ساتھ اسی بڑی ساری حویلی میں مقیم ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام ہے اس لیے عالم تاب کے بھائی بھابھی بھی حویلی میں ساتھ ہی رہتے ہیں۔ نوجوان نسل میں ڈھیر سارے لڑکے لڑکیاں ہیں۔ دل دیا دہلیز میں ان رشتوں ناتوں کا تفصیلی ذکر موجود ہے۔

ماضی میں کچھ ایسا ہوا تھا کہ بابا صاحب بہت سخت ہو گئے ہیں۔ کچھ ایسا کہ تیمور نے دریا بستی کی حویلی چھوڑ کر سرائے کی حویلی کو آباد کر لیا۔ یاور ڈی سی ہیں اور آج کل ان کی پوسٹنگ ہری پور میں ہے۔۔۔ ان کے بچے جواد اور روشی (روشانے یاور علی خان) عالم تاب اور بابا صاحب کے زیرِ سایہ پل رہے ہیں۔۔۔ یاور اپنے بچوں سے دور دور رہتے ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ اثر روشی نے لیا ہے۔۔۔ دل دیا دہلیز روشی کے بغیر نامکمل اور ادھورا ہے۔

.

حویلی کے لڑکے اور لڑکیوں کے ہنسی ٹھٹھول کرنے کی اجازت نہیں۔ لڑکوں کا حصہ الگ ہے، جسے مردانے کا نام دیا گیا ہے۔صرف باری (عبدالباری علی مہمندی) جو بابا صاحب کا خاص آدمی ہے اس کا کمرا بابا صاحب کے کمرے کے ساتھ ہے۔۔۔ باری ملازم نہیں ہے۔ لیکن وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے؟ حویلی کے بچوں کو کچھ خبر نہیں۔ بچپن سے وہ ان کے ساتھ ہی رہا، لکھا پڑھا اور اب بابا صاحب کا مصاحبِ خاص ہے۔۔۔ دل دیا دہلیز کا یہ ہیرو لڑکیوں میں بڑا مقبول تھا۔

گھر میں ملازم ڈھیر سارے تھے لیکن چند کا ذکر ہے جن میں ماما بلی، کھوکھر، سرسوتی اور کلو ہیں۔ مرد ملازموں کو حویلی میں آنے کی اجازت نہیں ہے۔ دل دیا دہلیز کی کہانی شروع ہوتی ہے تو حویلی میں عالم تاب کے بڑے بیٹے کی شادی ہو رہی ہوتی ہے۔ لیکن ایسی شادی کہ دلہن (جھومر) کو رخصت کروا کر چھپ چھپا کر لایا گیا ہے۔ اسے حویلی کے پیچھے بنی کوٹھریوں میں سے ایک سجی سجائی کوٹھڑی میں رکھا گیا ہے۔ جھومر کاکا کے ڈرائیور کی بیٹی ہے۔ ظفری بھیا (ذہنی معذور) کی شادی اور حویلی میں کوئی رونق ہی نہیں یہ سوال کم و بیش حویلی کی سب ہی لڑکیوں کے ذہنوں میں آیا تھا۔ مگر کھوج صرف روشی نے لگائی اور ایسی کھوج کہ جھومر کے کمرے تک جا پہنچی۔

.

کیسے پہنچی؟ دل دیا دہلیز کی یہ بہت خوبصورت منظر نگاری ہے۔ حویلی سے نکل کر پیچھے کوٹھڑیوں میں جاتے راستے میں خونخوار کتے اور کھوکھر (ملازم) کا گھر رستے میں پڑتا تھا۔ سائیں سائیں کرتی بڑی سی حویلی اور رات کا سناٹا۔ المختصر یہ کہ روشی جھومر تک جا پہنچی۔ لیکن پھر عالم تاب کو پتہ چل گیا اور روشی کی جو درگت بنی وہ الگ۔ روشی کی ہٹ دھرمی ویسے بھی حویلی کے مکینوں کے لیے کوفت کا باعث تھی۔

دل دیا دہلیز کا دوسرا ٹریک عارف، بالو اور لال خان کا ہے۔ عارف بالو کے والد کا دوست ہے۔ اس نے بالو (جس کی عمر انیس بیس سال ہے) کی شادی چالیس سالہ لال خان سے کروائی۔ لیکن بالو اس شادی سے خوش نہیں تھی۔ وہ عارف سے محبت کر بیٹھتی ہے۔ عارف کی زندگی میں کوئی روگ ہے اور اس روگ کی کھوج بالو میں دریا بستی بابا صاحب کی حویلی تک جا پہنچتی ہے۔

.

دل دیا دہلیز کا تیسرا ٹریک ماہین منیب احمد کا ہے۔ وہ یوگنڈا سے اپنے بھائی اور بابا کے ساتھ پاکستان آئی ہے۔ اب دریا بستی حویلی جانا چاہتی ہے اپنی مرحومہ بہن نازنین کے بچوں سے ملنے کے لیے۔ ماہین جواد سے چھوٹی اور روشی سے کچھ سال ہی بڑی ہے۔۔۔ماہین کو دریا بستی کے مکینوں کا اسے الجھائے رکھنا، روشی اور جواد سے کم ملنے دینا کھٹک رہا تھا۔ اسے اپنی جوان بہن کی پر اسرار موت بھی سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔

دل دیا دہلیز میں مظاہر سب اچھے تھے لیکن بیچ میں ایک گرہ تھی جو کھلنے کا نام نہ لیتی تھی۔ ایک رات اس نے کمرے کی کھڑکی سے باغیچے میں ایک عورت کو دیکھا جو زنجیروں سے بندھی تھی۔ کھلے بال، حسین ایسی کہ بندہ مبہوت رہ جائے۔ اس کے حسن میں کوئی اسرار تھا، مانو کوئی جادوئی سحر ہو۔ باری اور سرسوتی کا اس عورت کو زبردستی واپس پیچھے بنی کوٹھڑی میں لے کر جانا ماہین کو پتہ دے گیا کہ اس حویلی میں بہت سے راز دفن ہیں۔

.

وہ عورت جو ساحرانہ حسن رکھتی تھی، حسن کی دیوی مطربہ تھی۔ مطربہ پوری کہانی کا وجود تھی۔ وہ ماہین کے لیے ایک سربستہ راز تھی جسے ماہین نے ہی پرت در پرت کھولنا تھا۔ یہی جستجو تھی جس نے ماہین کو اپنے سے کئی سال بڑے یاور سے شادی پر مجبور کیا۔ پھر ماہین پیچھے بنی کوٹھڑیوں میں جا پہنچی۔ مٹی جالوں سے اٹی ویران کوٹھڑی میں مطربہ نے ماہین کے اصرار پر بیس سال پرانے حویلی کے اس راز سے پردہ اٹھایا۔ یہ راز حویلی کے مکین مرتے دم تک بھی اپنی نوک زباں پر نہیں لا سکتے تھے۔ یعنی مجموعی طور پر دل دیا دہلیز ماضی اور حال کے ساتھ چلتا ناول ہے۔

کیا روشی اور جواد کبھی نازنین و یاور کی سچائی جان پائیں گے؟

نازنین کا ٹوٹا دل کبھی جڑ پائے گا؟

یاور خاناں کبھی نازنین سے معافی مانگ سکیں گے؟

جھومر کبھی آزاد ہو پائے گی؟

کیا کبھی ماہین باقی بہن بھائیوں جبین، شاہین، نعمان کو بجو سے ملا پائے گی؟

اور کیا مطربہ کی سزا کم ہو پائے گی؟ کیا اسے معافی مل پائے گی؟؟

.

غرض ڈھیر سارے سوال رہ جانے کے بعد بھی دل دیا دہلیز نے دل کو بہت قریب سے چھوا۔ مطربہ نہ بھولنے والا کردار۔۔۔ لوگ اس کردار سے نفرت کریں گے لیکن میرے لیے یہ کردار مظلوم ہی رہے گا۔ دل کی بے بسی ایک ایسا معمہ ہے جو شاید کچھ لوگ ہی سمجھیں گے۔ انسان اس وقت غلط کرے تو بھی گناہ گار ہونے کے باوجود معافی کے لائق رہتا ہی ہے۔ چاہے اس کے شر سے دو نسلیں تباہ ہو جائیں۔

دل دیا دہلیز میں مطربہ رہی تو تہی دست لیکن معافی کی حقدار تھی۔۔۔ نازنین بے گناہ تھی مگر بہرحال کچھ شراکت اس کی بھی تو تھی۔ دیور بھابھی کا نازک رشتہ اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ آدھی رات کو شوہر سے چھپ کر فون پر بات کی جائے، چاہے وہ باتیں حدود میں رہ کر ہی کیوں نہ کی جائیں۔۔۔ نازنین کی تباہی میں ستر فیصد حصہ اگر مطربہ کا تھا تو دس دس فیصد تیمور، یاور اور خود نازنین کا بھی تھا۔

اسے میری چپ نے رلا دیا جسے گفتگو میں کمال تھا۔ دل دیا دہلیز بہت پیارا ناول ہے۔۔۔ رفعت سراج کا لکھا ماسٹر پیس۔۔۔ اب رفعت سراج پہلے جیسا نہیں لکھ رہیں لیکن ماشاءاللہ لکھ رہی ہیں۔ پچھلے ماہ پاکیزہ میں ان کا قسط وار ناول شروع ہوا ہے۔ دعا ہے اس ناول میں ان کے پچھلے ناولوں کی جھلک دیکھنے کو ملے۔۔۔ اور ہاں ناول پڑھتے ہوئے لطف اندوز ہوا سو ہوا، ساتھ ساتھ آسیہ رئیس آپی اور جام پائین کا بھی سر کھاتا رہا۔ تیمور خاناں کی بیوی کون تھی وغیرہ وغیرہ۔

نظرِ ثانی کے لیے فہمی باجی کا شکریہ

آبان احمد

آپ گذشتہ تبصرہ زرد پتوں کی بہار بھی پڑھ سکتے ہیں۔

Leave a comment