
راجندر سنگھ بیدی کا یہ ناول پنجاب کے ایک سکھ گھرانے کا منظر نامہ ہے۔ ان کی روز مرہ زندگی، دکھ سکھ، محبت و نفرت، ریت رواج سب کو بہت خوبصورتی سے ایک کہانی میں پرویا گیا ہے۔ اس میں جہاں انفرادی کہانیاں ہیں، وہیں پورے معاشرے کی عکس بندی بھی کی گئی ہے۔ اس ناول پر پاکستان اور ہندوستان میں فلمیں بھی بن چکی ہیں۔<br>ناول کا مرکزی کردار رانو کا ہے جو کہ ایک عام گھریلو عورت ہے۔ وہ ان پڑھ اور گھریلو کام دھندوں میں غرق ہے۔ گھر کی مفلوک الحالی، شوہر کی بد چلنی اور شراب نوشی سے نبرد آزما عورت۔۔۔
.
وہ عورت جس کا کام نا مساعد حالات میں جینا، مصاٸب کے ٹوٹتے پہاڑوں کو برداشت کرنا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو اس تباہی سے بچانا ہے۔
وہی کمزور عورت جو تلو کے بوتل نکالنے پر اس سے لڑ پڑتی ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ جواب میں اسے مار پیٹ ملے گی۔ ساس اس کی بیٹی کا سودا کرنے لگتی ہے تو اس سے بھی بھڑ جاتی ہے۔ حالات کے تھپیڑے برداشت کرتی ہے اور ان سب میں اپنا ذہنی توازن قاٸم رکھتی ایک عام سی عورت۔
.
تلو کے قتل کے بعد اس کا بیاہ اپنے دیور منگل سے زبردستی کر دیا جاتا ہے۔ رانو کے لیے منگل ایک بچہ تھا اور منگل کے لیے رانو احترام کے لاٸق۔ ان دونوں کے بیچ جھجک کا ایک پردہ حاٸل رہتا ہے۔ یہاں اس ناول کا معاشرتی زاویہ سامنے آتا ہے۔ ہمسائیوں اور رشتہ داروں کا کردار جو رانو کو اس شادی کے لیے مائل بھی کرتے ہیں۔ پھر اس کا گھر بسانے میں مدد بھی کرتے ہیں۔
ناول کا نام ایک رسم سے اخذ کیا گیا ہے۔ منگل اور رانو کا بیاہ ایک میلی سی چادر تان کر کیا جاتا ہے۔ یہ چادر دراصل معاشرے کی عکاس ہے۔ جہاں نفرت و حسد، ظلم و جبر کے داغ تو ہیں مگر اپنائیت، محبت، ایثار و قربانی اسے باندھے رکھتے ہیں۔ اسی میلی چادر کے نیچے گھروں کا نظام چلتا رہتا ہے۔
سدرہ جاوید کا گزشتہ تبصرہ