Home » Movie, Drama and Series Reviews » No Time To Die | English Action Movie | Urdu Review
No Time To Die
No Time To Die | English Movie

No Time To Die | English Action Movie | Urdu Review

No Time To Die

No Time To Die

Review: Usman TDK

<d

میں نے اس فلم سے متعلق کئی تبصرے پڑھے اور یوٹیوب پر سنے بھی۔ جن میں عموماً اس فلم کو اچھا خاصا رگیدا گیا کہ ایک ایکشن ہیرو کو جذباتیت کے چکروں میں ڈال کر گیڈر بنا دیا گیا۔ میرا نظریہ ان سب سے مختلف ہے۔ آئیے آپ کو اس فلم کا ایک نیا رخ دکھاتا ہوں۔

مجھے ایسی فلمیں، ناول بے انتہا پسند جن میں مار دھاڑ اور رومان ایک ساتھ چلتا ہو۔ میرا لکھا پہلا ناول (راستہ) بھی اسی صنف پر مبنی تھا۔ میرے حساب سے جیمز بانڈ کی اب تک کی تمام تر فلموں میں سب سے بہترین حصّہ یہی پچیسواں حصّہ ہی تھا۔ اس میں محبت اور جنگ ایک ساتھ چلتی رہی اور ایک شاندار ترین انت پہ مووی کا اختتام ہوا۔

آپ اسے اسپائلر کہیں یا کچھ اور لیکن میرا ماننا ہے کہ کہانی جان لینے کے بعد اسے دیکھنے کا تجسس مزید بڑھتا ہے آیا کیسا نبھایا گیا ہو گا؟

.

میں چند مناظر کی جھلکیوں اپنے الفاظ میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں۔ پہلے شروعاتی منظر کے بعد کمرے میں محبت بھرے رومانوی منظر ہیں۔ اگلی صبح اصل کہانی شروع ہوتی ہے۔ جیمز بانڈ اپنی بیوی کو تیار ہونے کا کہتا ہے۔ انہوں نے کہیں جانا ہوتا ہے۔ جبکہ وہ خود اس قبرستان میں چلا جاتا ہے جہاں ویسپر لائنڈ مدفون ہے۔

یہاں گذشتہ فلم سے پیوستہ منظر میں جیمز بانڈ کے چہرے کی جھلک دکھائی جاتی ہے۔ بوڑھا ہوتا ایک حسین مرد، جس پر ہزاروں لڑکیاں فدا رہی تھیں ایک ایسی لڑکی پہ مر مٹا، جس نے اسے دھوکا دیا۔ جانتے بوجھتے بھی بانڈ کا اس کے پیچھے جانا۔۔۔ اسے بچانے کو جان لڑا دینا۔۔۔ لیکن ویسپر کا اس کی بانہوں میں دم دینا۔ لال سوٹ میں ملبوس اس اداکارہ کی فلمی موت دل اداس کر دیتی ہے۔۔۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ تو محض ایک منظر ہے۔

.

قبرستان میں جیمز بانڈ کے آنے کا مقصد ہی شاید معافی مانگنا تھا۔ اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی۔ ایک کاغذ پہ ”مجھے معاف کر دو“ لکھا ہوتا ہے، جسے جیمز بانڈ جلا دیتا ہے۔

اس سے آگے مار دھاڑ والے چند مناظر ہیں جو جیمز بانڈ کی پہچان ہیں۔ ولن جیمز بانڈ کے کان میں اس کی موجودہ بیوی اور فلم کی ہیروئین بارے میں کچھ کہتا ہے۔۔۔ ایسا ظاہر ہوتا ہے جیسے اس نے جیمز بانڈ کو دھوکہ دیا ہو۔

کیمرہ رخ بدلتا ہے۔ جیمز بانڈ تھری پیس میں بائیک دوڑاتا ہوٹل آ کر رکتا ہے۔ بلکہ رکتا کیا ہے، بائیک کو زمین پہ پھینک دیتا ہے۔ اور اسٹائل سے چلتے ہوئے کوٹ کا بٹن بند کرتا اندر جاتا دکھائی دیتا ہے۔

پھر وہ ہیروئین سے سخت لہجے میں چند سوالات کرتا نظر آتا ہے۔ وہ بے چاری کچھ جانتی ہی نہیں۔ محبت کرنے والے رومانوی محبوب کا یہ روپ دیکھ کر گھبرا جاتی ہے۔ جیمز بانڈ اسے بازو سے پکڑے باہر لاتا ہے۔ مار دھاڑ کے بعد وہ منظر آتا ہے جو جدائی کا ہے۔

.

کسی نے کہا تھا۔ ویسے ایسی سیانی باتیں میں خود کر کے کسی کا نام لگاتا ہوں۔ مرد اگر محبت کر لے تو تا دمِ آخر ساتھ نبھاتا ہے۔۔۔ لیکن یہاں قابلِ غور ”اگر“ ہے۔ آج اس سیانی بات میں اضافہ کرتے ہیں۔ مرد جب کسی سے محبت کرتا ہے تو جان آسانی سے دے اور لے سکتا ہے۔۔۔ اگر شک کی بنیاد اس کے دل میں گھر کر لے تو پھر سب ختم۔ مجنوں سے لے کر رانجھے تک مرد محبتوں میں پاگل دیوانے ہوتے آئے ہیں۔۔۔ لیکن یہی مرد محبت میں نفرت بھی نبھاتا ہے۔ آج کل کی محبتوں کو چھوڑ کر، وہ تو بس لگی آگ کا ایک کرشمہ ہوتا ہے۔ وقتی کشش کو نام دیا جاتا محبت کا۔

.

یہاں دونوں یعنی جیمز بانڈ اور ہیروئین (میڈلین) کی محبت اور نفرت نظر آتی ہے۔ میڈلین کو کچھ علم ہی نہیں کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ جیمز بانڈ اسے تیز تیز چلاتے ہوئے ٹرین تک لاتا ہے۔ جیسے ہی وہ رکتے ہیں، جیمز میڈلین کو اپنے گلے لگاتا ہے۔

میڈلین: کیا سب ختم؟

جیمز بانڈ: ہاں سب ختم۔

میڈلین: مجھے کیسے پتہ چلے گا کہ تم ٹھیک ہو؟

اففففف، یہاں اس کی آنکھوں کی نمی۔

جیمز بانڈ: نہیں چلے گا۔ کیوں کہ اب تم دوبارہ مجھے کبھی نہیں دیکھو گی۔ (جیمز بانڈ کا پتھریلا چہرہ، بے تاثر آنکھیں)

میڈلین اسے گلے ملنے کی کوشش کرتی ہے لیکن وہ ایک جھٹکے سے اس کو خود سے علیحدہ کر کے ٹرین پر چڑھا دیتا ہے۔ دروازہ بند ہونے لگتا ہے۔ تب میڈلین اپنے پیٹ پر ہاتھ رکھتی ہے۔ بعد میں جب دوبارہ ملاقات ہوتی ہے تو ان کی بیٹی پانچ سال کی ہو چکی ہوتی ہے۔

.

جیمز بانڈ بے حسی سے باہر سیدھا کھڑا ہے۔ ٹرین چلنا شروع ہوتی ہے۔ میڈلین ٹرین کے شیشے سے دیکھتی ہے۔ جیمز بانڈ واپسی کے لیے مڑ رہا ہوتا ہے۔ وہ ٹرین میں ہی دوڑنا شروع کر دیتی ہے۔ میں نے اس کو دیکھا، جتنا دیکھا جا سکتا تھا۔۔۔ پھر بھی نم آنکھوں سے کتنا دیکھا جا سکتا تھا۔۔۔ میڈلین کی آنکھوں میں نمی بھرتے بھرتے، آنسوؤں کی صورت ٹپک رہی ہے۔ درمیان ایک ستون آتا ہے اور جب ریل گاڑی آگے نکلتی ہے تو جیمز بانڈ کہیں نہیں ہوتا۔ اس وقت ایک گانا چلتا ہے۔

.

I should have known

I’d leave alonejust goes to show

that the blood you bleedis just the blood you owe

we were a pair

but I saw you there

too much to bear

you were my life

but life is far away from fair

was I foolish to love you

ہائے

was I reckless to help

یہ بھی محسوس کریں۔

.

was it obvious to everybody else

that I’d fallen for a lie

you were never on my side

fool me once fool me twice

are you death or paradise

now you’ll never see me cry

there is just no time to Die

.

واحد انگلش گانا، حالانکہ اس کے بول بھی قافیہ کے بغیر ہیں لیکن مجھے پسند آیا۔ واحد گانا اس لیے کہ انگریزی گانے بس گلا پھاڑ ہوتے ہیں۔۔۔ یا پھر اتنے دھیمے کہ نیند آنے لگتی ہے۔ موسیقی کے نام پہ اگر کچھ سننے کے قابل ہے تو وہ نوے کی دہائی کے اردو گانے ہیں جنہیں سن کر آپ محبت کو محسوس کرتے ہو۔ اس کے علاوہ پنجابی گانے، جن کو سن کر آپ خود کو انہی کا ایک کردار محسوس کرتے ہیں۔

.

خیر، اب دوسرے بہترین منظر کی بات کرتے ہیں جو فیلیکس کی موت ہے۔ جیمز بانڈ خود کو ایک بے پروا اور وطن پرست ظاہر کرتا ہے۔ اصلیت میں اسے بس انسانوں کی پروا ہوتی ہے، اپنے دوستوں کی۔۔۔ لیکن وہ ظاہر نہیں کرتا، بس اپنے عمل سے ثابت کرتا ہے۔ گذشتہ فلم میں جب اس کا ایک دوست مرتا ہے، اس کے پیچھے بندوقوں والے لگے ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنے دوست کی آنکھیں اپنے ہاتھوں بند کرتا ہے اور چند لمحے وہیں زمین پہ بیٹھتا ہے۔ پھر اسے جھولی میں بھر کے ڈسٹ بن میں پھینکتا ہے تو ساتھی لڑکی سوال کرتی ہے۔

تو ایسے نبھاتے ہو تم دوستی؟

جواباً جیمز بانڈ کہتا ہے۔ یہ صرف جسم تھا۔ اسے کوئی پروا نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

.

اسی طرح اس فلم یعنی نو ٹائم ٹو ڈائی میں فیلیکس کی موت ہے۔ جیمز اس کے لیے پانی میں واپس جاتا ہے۔ فیلیکس کہتا ہے کہ تم مجھے چھوڑو اور نکلو یہاں سے۔ لیکن اس کا دم نکلنے تک وہ وہیں پہ رکا رہتا ہے۔ پھر ایک گہری سانس لے کر اپنے دوست کے آخری دیدار کے لیے پانی میں اترتا ہے۔ وہاں سے وہ ایسے واپس آتا ہے جیسے اپنی وراثت لینے آیا ہو۔ دفتر میں اس کی گفتگو، اس کا لہجہ۔۔۔ اور باس کو احساس ہونا کہ بانڈ ٹھیک ہے، اس کا جیمز بانڈ کو دوبارہ واپس بلانا۔

.

پھر اس کی ملاقات پانچ سال بعد اپنی بیوی سے ہوتی ہے۔ میڈلین کی آنکھیں پھر سے نم ہو جاتی ہیں۔ وہ ہوش کھونے لگتی ہے لیکن جیمز بے تاثر چہرے کے ساتھ ہاتھ یوں آگے بڑھاتا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ اسی شام جیمز میڈلین کے گھر جاتا ہے۔ میڈلین سے اس کا مکالمہ اففففففف۔۔۔ ایکشن فلم کی جان تھا یہ رومانوی منظر۔۔۔ جیمز بانڈ کا پر اعتماد انداز میں کھڑے ہو کر بولنا۔ میڈلین کا دھیرے دھیرے سیڑھیوں سے اترنا۔۔۔ اس کی آنکھوں کا نم ہونا۔۔۔ جیمز بانڈ اپنے ہی انداز میں معافی مانگنے کی بجائے سراپا معذرت بنا کھڑا ہوتا ہے۔

.

میں یہاں یہ جاننے کے لیے آیا ہوں کہ تمہیں وہ زہر کس نے دیا؟ لیکن میں تمہیں یہ بتائے بغیر نہیں جاؤں گا کہ میں نے تمہیں نے انتہا پیار کیا تھا اور کرتا رہوں گا۔ یہاں اچانک سے اس بچی کا سامنے آنا۔ افففففف، چند ماہ قبل ایک بات لکھی تھی، جو شئیر کر رہا ہوں۔

Boy’s Always come For Their Mom’s

But Daughters LoVe Always For Their Dad’s

.

جیمز بانڈ کو اپنی بیٹی کے ساتھ بس چند پل ملتے ہیں۔ پہلا وہ منظر جہاں وہ اسے دیکھتا ہے۔ دوسرا، اگلی صبح اس کے لیے ناشتا بنانا۔ تیسرا حملے کے بعد جب ولن میڈلین اور بچی کو لے جاتے ہیں تو بانڈ چھڑوانے جاتا ہے۔ انہیں آزاد کروانے کے بعد ملاقات ہوتی ہے۔ جیمز بانڈ کشتتی اتر کر بچی کو میڈلین سے پکڑتا ہے۔ اسے اپنی جرسی اتار کر دیتے ہوئے کہتا ہے، باہر نکلتے ہی موسم کافی ٹھنڈا ہو جائے گا، اس لیے اسے پہن کر رکھو۔ پھر وہ گھٹنوں کے بل بیٹھتے ہوئے بچی کے برابر آتا ہے اور کہتا ہے، یہ تمہیں گرماہٹ دے گا۔

یہ جانتے ہوئے بھی کہ شاید یہ ملاقات آخری ہو، جیمز بانڈ جذباتیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے پروفیشنل انداز میں نظر آتا ہے۔ تاہم اس میں بھی بیٹی کا احساس نمایاں ہے۔ بلا وجہ تو باپ کو گھنا سایہ نہیں کہتے۔ کوئی تو وجہ ہوتی ہے نا۔۔۔ باپ نام ہی اس کا ہے جو خود دھوپ میں چلتے ہوئے اپنے بچوں کو اپنے سائے میں چھپا لیتا ہے۔

.

آخری منظر یعنی انت۔۔۔ کہانی کا بھی، فلم کا بھی اور بانڈ کا

بھی۔ جزیرے سے چاہتے ہوئے بھی نکل پانا جیمز بانڈ کی خواہش نہیں کیونکہ زہرِ قاتل اس کے جسم میں موجود ہے۔یہاں جیمز بانڈ سیریز کی پہچان مار دھاڑ سے بھرپور کلائمکس ہے۔ سب کو مارنے کے بعد جیمز بانڈ اپنے فنِ عروج پہ نظر آتا ہے۔

لیکن افسوس ”ہمارے فن کی معراج ہی ہمارا انت ٹھہرتی ہے۔“ یہ جیمز بانڈ کے وداع ہونے کا وقت ہے۔ وہ اپنی ایجنسی کے جن لوگوں سے رابطے میں ہوتا ہے، میڈلین سے بات کروانے کے لیے کہتا ہے۔ دورانِ گفتگو میڈلین بتاتی ہے کہ وہ بیٹی تمہاری ہی ہے۔ (جب پانچ سال بعد پہلی ملاقات ہوتی ہے تو میڈلین نے کہا ہوتا ہے یہ بچی تمہاری نہیں) یہاں میڈلین، جیمز بانڈ کی یقینی موت کے زیرِ اثر ایک جملہ کہتی ہے۔ کاش تھوڑا مزید وقت مل جاتا۔ جیمز بانڈ جواب دیتا ہے۔ وقت کا محتاج نہیں ہے ہمارا پیار۔۔۔

.

افففففففف، یہ منظر سینما انڈسٹری کا اب تک میرے دیکھے گئے چند بہترین مناظر میں سے ایک ہے۔ اچھا یہاں ایک بات کا اضافہ کرتا چلوں۔ جو مکالمہ حقیقی لکھاری کا ہے اس کا لفظی اردو ترجمہ بنتا ہے۔ دنیا میں جتنا وقت ہے وہ سب تمہارے لیے ہے۔ لیکن جس لکھاری نے ہندی ڈبنگ کی ہے اس نے لکھا ہے۔ وقت کا محتاج نہیں ہمارا پیار۔ اسی وجہ سے کئی مرتبہ میں چند مناظر جو زیادہ اچھے ہوں، انہیں صرف اصل زبان میں دیکھتا حالانکہ مجھے اردو زیادہ پسند ہے بہ نسبت انگریزی کے۔

.

فلم سے متعلق ایک بات مزید

کئی فلمیں ایسی ہوتیں جنہیں دیکھ کر میرا دل کرتا کہ ہیرو کو سائیڈ پہ ہٹا کر چپیڑ مارے بندہ۔۔۔ لیکن کئی ایسی ہوتیں کہ لگتا اتنا پرفیکٹ ایکٹ۔ ڈینئیل کریگ ان چند اداکاروں میں سے ہے جن کی اداکاری ہر کردار میں فٹ بیٹھتی ہے۔ یوں لگتا ہے یہ بنے ہی اسی کردار کے لیے تھے۔ شاید یہی اصل اداکاری ہے۔ بانڈ کی پچیسویں فلم کا بانڈ بہترین بانڈ تھا۔

.

پچیسویں فلم بہترین فلم تھی اور انت سب سے زیادہ شاندار۔کیمرہ بند ہونے سے قبل میڈلین اپنی بیٹی کے ساتھ گاڑی میں جا رہی ہوتی ہے۔ وہ کہتی ہے۔ تمہیں ایک کہانی سناتی ہوں۔ ایک تھا بانڈ، جیمز بانڈ۔۔۔ میری لکھی ایک پرانی غزل اسی منظر کے نام۔

اگر وقت پہ ملتے تو چند باتیں کر لیتے

بڑی دیر کر دی تم نے اظہار کرتے کرتے

زندگی چلی جائے گی پھر احساس ہو گا

خواہش رہ گئی ادھوری اقرار کرتے کرتے

جب اسے میری چاہت کا احساس ہو گا

وہ ٹھہر جایا کرے گی بات کرتے کرتے

جو صرف اس کا حاصل تھا وہ گنوا بیٹھی

ایک آنسو ٹپکے گا خوشیاں شمار کرتے کرتے

مسکراتا ہوا میں ، جو آئینہ میں ابھروں گا

وہ بے اختیار رو پڑے گی سنگھار کرتے کرتے

Previous Blog Atomic Habits Review

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *