Home » Book & Literature Review » راکا پوشی کے سائے میں | سعد منور
راکا پوشی کے سائے میں
راکا پوشی کے سائے میں | سعد منور

راکا پوشی کے سائے میں | سعد منور

راکا پوشی کے سائے میں

راکا پوشی کے سائے میں

مصنف: سعد منور

تبصرہ: فہمیدہ فرید خان

۳۱/۰۸/۲۰۱۹

گذشتہ برس ۹ ستمبر کو جب میں اسلام آباد گئی تو بہت سے جہاں گردوں سے ملاقات ہوئی۔ وہیں ایک ابھرتے ہوئے مصنف سے بھی علیک سلیک ہوئی تھی۔ اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ ایک دن یہی قلم کار تین پہاڑوں کے حوالے سے ریکارڈ بنائے گا۔

تو صاحبو! یہ لکھاری کوئی اور نہیں سعد منور تھا۔ تب فریال آنٹی نے مجھے سعد کی کتاب ”راکا پوشی کے سائے میں“ تحفتاً دی تھی۔ اس پر سعد نے اپنا آٹوگراف بھی دیا اور یوں میرے خزانے میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ خوش مزاج اور منکسر المزاج سعد منور سے یہ میرا اولین تعارف تھا۔

سعد کے اندر بہت خوبیاں ہیں، وہ مودب ہے، خوش اخلاق ہے اور سب سے عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔ با ادب با نصیب۔۔۔

میں نے یہ کتاب لا کر اپنی فوری پڑھنے والی کتابوں کے ساتھ رکھی مگر اسے پڑھنا کئی دن بعد شروع کیا۔ دراصل جب میں کوئی کتاب پڑھتی ہوں تو پوری دلی آمادگی سے اور دھیان لگا کر پڑھتی ہوں ورنہ کتاب پڑھنے کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ لیکن ابھی آدھی ہی پڑھی تھی کہ ولید نے مانگ لی۔ پھر وہ گاؤں چلا گیا تو آج کل کرتے یہ کتاب چھ سات ماہ بعد واپس آئی۔

خیر جی، حیرت انگیز طور پر مجھے دوبارہ پڑھتے ہوئے بالکل دقت یا اکتاہٹ محسوس نہیں ہوئی، جیسا کہ اکثر کتابوں پڑھتے وقت ہوتا آیا تھا۔ اس میں سعد کے اندازِ تحریر کا بھی یقیناً بڑا دخل رہا۔

اس کتاب کا سرِ ورق مجھے بہترین لگا، کتاب کے عنوان ”راکا پوشی کے سائے میں“ کے عین مطابق۔۔۔ شروعات میں مصنف نے اپنے ساتھیوں سے ہمارا تعارف کروایا۔ پھر ہمیں پورے سفر میں اپنے ساتھ ساتھ رکھا۔ خواہ وہ راکا پوشی ٹریک یا کچیلی جھیل کا سفر۔۔۔ نگر، ہنزہ، حسینی پل، عطاء آباد جھیل اور خنجراب پاس تک۔۔۔ ہر جگہ کے بارے میں سیر حاصل معلومات بھی فراہم کی گئیں۔۔۔ ہر جگہ ہم سعد اور اس کی ٹیم کے ساتھ محوِ سفر رہے۔۔۔ اس کے ساتھ تصورات میں گھومتے رہے، اٹھکیلیاں کرتے رہے اور تھوڑی تھوڑی فلرٹیشن بھی دیکھتے رہے۔۔۔

ایک آدھ جگہ مجھے یوں لگا کہ جیسے سعد کا ارتکاز ٹوٹا ہے کیوں کہ وہاں اس کی تحریر پر گرفت کچھ کمزور پڑی تھی مگر اس نے بہت اچھے سے سنبھال لیا۔ بعض جگہ سعد معرفت کی ایسی گہری باتیں لکھ گیا کہ میں اش اش کر اٹھی۔ شاید یہی آمد کے وہ الہامی لمحات ہوتے ہیں، جب ایک قلم کار اپنی دھن میں رقم طراز ہوتا ہے اور الفاظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے ہیں۔

بہترین اقتباس، میرے حساب سے کچیلی جھیل والا ہے۔ آئیے ذرا الفاظ کی روانی اور جذبات کی جولانی ملاحظہ فرمائیں۔

بازو سن ہونے کی وجہ یہ تھی کہ کچیلی کا پانی بے حد ٹھنڈا تھا، جیسے پگھلی ہوئی برف ہو۔ لیکن مجھے کہاں پروا تھی۔ میں کچیلی پر جھک گیا اور ہاتھوں سے پانی پینے لگا۔ پھر چار ہزار میٹر بلند کچیلی جھیل کے پانی سے وضو کیا اور اذان دینے کے لیے کچھ اوپر بلندی تک آ گیا۔

خزاں کا موسم

سردیوں کی دوپہر جیسی سنہری دھوپ

دنیا کی خوبصورت ترین چوٹیاں

دیران اور راکا پوشی

ٹھنڈی سرد ہوا، جس کی وجہ سے کچیلی کے پانی میں ہلکی لہریں اٹھتی تھیں اور کنارے پر جا کر لگتی تھیں۔۔۔

اور یہاں میں کھڑا تھا۔۔۔کانوں پر انگلیاں رکھے۔۔۔

میں نے آنکھیں بند کیں۔۔۔

اللَّهُ أَکْبَرُ اللَّهُ أَکْبَرُ۔۔۔ بے شک اللہ سب سے بڑا ہے۔۔۔

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ۔۔۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا

کوئی معبود نہیں۔۔۔۔۔

أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ۔۔۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔۔۔

یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جو انمول ہوتے ہیں۔۔۔ میری کیا اوقات کہ چار ہزار میٹر کی بلندی پر ربِ کائنات کا نام لے سکوں۔۔۔ میری کیا اوقات کہ میں ان اونچے پہاڑوں کے دامن میں، اس خوبصورت جھیل کے کنارے، اس سبز ڈھلوان پر، ان پیلے پھولوں کے درمیان سجدہ کر سکوں۔۔۔ لیکن ”وہ“ بڑا بے نیاز ہے۔۔۔

جتنا دیا سرکار نے مجھ کو، اتنی میری اوقات نہیں

یہ تو کرم ہے ان کا ورنہ مجھ میں تو ایسی بات نہیں

اور زمین کے ٹکڑے جب قیامت کے روز میری بندگی کی گواہی دیں گے تو یقیناً وہاں کچیلی کے کنارے اس سبز ڈھلوان میں پھولوں سے بھرا یہ ٹکڑا بھی ہو گا۔

جس خوبصورت انداز میں سعد نے اللہ سبحانہ و تعالٰی کی ذات کی کبریائی بیان کی، وہ قابل تعریف اور قابل تقلید ہے۔ ہم جہاں کہیں بھی جائیں، اپنے خالق کی تخلیق کی حمد و ثناء کر کے اس کے شکر گزار بنیں۔ اس سے بڑی سعادت کوئی نہیں۔میرے لیے کتاب کئی حوالوں سے معتبر ٹھہری، لیکن سب سے بڑا حوالہ راکا پوشی کے سائے میں کے مصنف کا ہی ہے۔ میں سعد منور کے لیے اللہ سبحانہ و تعالٰی کے حضور دستِ طلب کا کاسہ بڑھائے محوِ مناجات ہوں کہ وہ ہر جگہ سرخرو رہے۔

آمین ثم آمین

#The_Fehmiology

#FFKhan

#FFK

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *