Home » Book & Literature Review » بیتی رُتوں کے نقشِ پا | لبنیٰ رانا
بیتی رُتوں کے نقشِ پا
بیتی رُتوں کے نقشِ پا | لبنیٰ رانا

بیتی رُتوں کے نقشِ پا | لبنیٰ رانا

بیتی رُتوں کے نقشِ پا

بیتی رتوں کے نقش پا از لبنیٰ رانا

تجزیہ از فہمیدہ فرید خان

دو تین روز قبل سحر ساجد دو ناول ڈھونڈتی پائی گئیں جن میں سے ایک کی تلاش مکمل ہوئی۔ انہوں نے پوسٹ لگا کر یہ اطلاعِ عام دی۔ مابدولت نے سوچا ہم بھی پڑھ لیتے ہیں۔ ویسے بھی کوئی کام دام کرنے کا من نہیں تھا۔ گوگل چاچا سے ملتمس ہوئے کہ ہم کو کہانی عطا کی جائے۔ انہوں نے فوراً دستِ شفقت بڑھایا، ”لے لو بیٹا“ اور پھر جاننے والے جانتے ہیں ہماری برق رفتاری (صرف پڑھنے کی حد تک) کا کیا عالم ہے۔ شپاشپ چار اقساط پڑھ کر ناول کا بیڑہ پار کیا۔ میرا تبصرہ لکھنے کا ارادہ تو نہیں تھا لیکن ابھی ابھی سحر ساجد کی پوسٹ پر سوال دیکھا کہ کیسا ناول ہے؟ تو سوچا تھوڑا سی تجزیاتی موشگافی تو ضبطِ تحریر میں لانی ہی چاہیئے۔

دھوم تانا نانانہ

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ میں نے لبنیٰ رانا کو کبھی پڑھا ہو۔ بیتی رُتوں کے نقشِ پا ان کا پہلا مکمل ناول ہے جو میں نے پڑھا۔ اس کی سب سے بہترین بات ناول کے دوراہوں کو خوبصورتی سے جوڑا گیا تھا۔ ایک حصہ جہاں جس طرح ختم ہوتا، اگلا حصہ بعینہ اسی طرح شروع ہوتا تھا، ملاحظہ فرمائیں۔

اس نے دائیں جانب دیکھا ایک دلفریب آس کے ساتھ، ایک موہوم سی امید کے سہارے، ایک معجزے کی توقع سے مگر کچھ نہیں ہوا۔ اسے اپنے حواس بے جان ہوتے محسوس ہوئے۔

مجھے اپنے حواس بے جان ہوتے محسوس ہوئے۔ بالکل اچانک اور غیر متوقع طور پر میرے سامنے وہ شخص موجود تھا جس سے تھوڑی دیر پہلے ہوئی مڈبھیڑ غالباً اتنی خوشگوار نہیں تھی۔

کمال است

دوسری بات اس میں آخر میں اصل معاملہ کھلتا ہے۔ زیرک قاری جان لے تو الگ بات وگرنہ پہچاننا مشکل تھا۔۔۔ دھوم تانا نانانہ

کہانی تو میں نہیں کھولوں گی تاہم بیتی رُتوں کے نقشِ پا کا تھوڑا تعارف دے دیتی ہوں۔ ایک حصے میں خاندان کے سربراہ کا نام لیے بغیر کہانی چلی اور کیا خوب چلی۔ موحد ہی نمیر والا ہی آئیڈیا غالباً یہیں سے لیا گیا تھا۔ مگر یہاں میں اش اش کر اٹھی جب آخر میں، جی ہاں واقعی آخر میں پتہ چلا کہ پاپا کون تھے۔ بلکہ مما بھی کون تھیں۔۔۔ بھئی پاپا کی بیگم مما تھیں۔ ان کے بچے تھے قرۃ العین، ارتضیٰ اور مومو۔۔۔ ایک عدد پھپھو اور ان کا بیٹا معیز جو قرۃ العین کو پسند کرتا تھا۔۔۔ اور ہاں فارینہ بھی تھی جو معیز کو پسند کرتی تھی۔ قرۃ العین کا باس زیاد آفاق اسے کو پسند کرتا تھا۔۔۔ جبکہ دفتر میں ردا باس کو پسند کرتی تھی۔۔۔ دھوم تانا نانانہ

دوسرے حصے میں تھے بختاور، اس کی دوست نادیہ اور سارہ۔ بختاور کی دادو، امی اور ابو۔۔۔ نادیہ کا بھائی ثاقب، جس کی بختاور سے منگنی ہو چکی تھی۔۔۔ پھر سلجوق عمر تھا جس سے فلرٹ کرنے کی نادیہ نے کلاس فیلو مائرہ سے شرط لگائی تھی۔ اس کو بچانے کے لیے یہ بلا بختاور نے اپنے سر لے لی لیکن سلجوق عمر سچ مچ اس کی محبت میں گرفتار ہو گیا تھا۔۔۔ دھوم تانا نانانہ

آپ پوچھیں گے ان دونوں حصوں کا آپس میں کیا تعلق تھا؟؟ اس بات پر بھی دھوم تانا نانانہ

بختاور کی شادی ثاقب سے ہوئی یا سلجوق عمر سے؟؟ دھوم تانا نانانہ

قرۃ العین کس کا نصیب بنی؟؟ دھوم تانا نانانہ

پاپا کون تھے؟؟ دھوم تانا نانانہ

مما کون تھیں؟؟؟ دھوم تانا نانانہ

مجھے انجام پسند نہیں آیا۔۔۔ دھوم تانا نانانہ

اور ہاں ایک بات ہم کو کھٹک رہی تھی یعنی ایک کردار ناول کے بیچ میں سے ایسے غائب ہوا جیسے، جی جی وہی بات سینگوں والی۔ ویسے شاید اس کو صرف معاملات بگاڑنے کے لیے لایا گیا تھا مگر کہانی کھلنے کے ڈر سے میں نہیں بتا رہی کہ وہ کون تھا تو اس کے لیے بھی دھوم تانا نانانہ

بیتی رُتوں کے نقشِ پا کی کہانی اچھی ہے۔ آپ اسے پڑھ کر مایوس نہیں ہوں گے۔ جن لوگوں کو لگ رہا ہے رومانوی مثلث زیادہ ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ کہانی میں مناسب کردار تھے اور فالتو کوئی نہیں تھا۔ دو ٹریک تھے بس یعنی کہ دھوم تانا نانانہ

#The_Fehmiology

#FFKhan

#FFK

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *