
بستی از انتظار حسین
تبصرہ از فہمیدہ فرید خان
بتاریخ ۲۷/۰۸/۲۰۱۸
کل حصار نے مجھ سے کچھ کتابوں کا پی ڈی ایف معلوم کرنے کی استدعا کی۔ یہ چھ بجے سے کچھ قبل کا عمل تھا۔ میں اس وقت ایک ادارے کے لیے پروپوزل لکھنے والی تھی لیکن لیپ ٹاپ کی بیٹری نے جواب دے دیا۔ میں نے جونہی چارجر جوڑا، عین اسی وقت بجلی چلی گئی۔ (آج کل لوڈشیڈنگ کا وقت چھ بجے ہے۔)
.
خیر لیپ ٹاپ ایک جانب کھسکا کر وقت گزاری کا سامان سوچنے لگی۔ تبھی حصار کی درخواست یاد آ گئی۔ موبائل اٹھا کر سیدھی گوگل چاچا کے دوارے پہنچی اور تین عدد ناول باریاب کرنے میں کامیابی نصیب ہوئی۔ جبکہ باقی ناول مل کر ہی نہ دیئے۔ ان میں ترتیب کے لحاظ سے پہلا ناول تھا بستی۔ سوچا تھا اگر اس تحریر پر دل نہ ٹُھکا تو کوئی دوسری پڑھ لوں گی۔ تاہم اس کی پہلی سطروں نے ہی اپنے سحر میں جکڑ لیا۔
جب دنیا ابھی نئی نئی تھی، آسمان تازہ تھا اور زمین ابھی میلی نہیں ہوئی تھی۔ جب درخت صدیوں میں سانس لیتے تھے اور پرندوں کی آوازوں میں جگ بولتے تھے۔
دیکھئے کیا عمدہ لفاظی ہے اور الفاظ کا کیا ہی خوبصورت تال میل ہے۔ آگے بڑھی تو ذاکر یعنی ہیرو کے سامنے ہابیل اور قابیل کا قصہ تھا۔ اماں بی اور ابا جان کی باتیں تھیں۔ بھگوان اور رحمان کی تفریق تھی۔ بھگت جی کی تشریکات اور ابا جان یعنی مولانا صاحب کی احادیث کی تشریحات تھیں۔ ابا جان کو مسجد میں بجلی لگوانا اور علم کو تاشوں کے ساتھ نکالنا بدعت لگتا تھا۔ لیکن دیکھیے آج ہم ان گنت بدعتوں کا شکار ہو چکے ہیں۔۔۔ ہاں مگر احساس بڑی صفت ہے دوستو، جو اب عنقا ہو چلی ہے۔
.
بستی ناول مصنف کے ناسٹلجیا سے مرسوم رہا۔ گاڑی چھکا چھک چلتی رہی، سفر جاری رہا اور میں اس ناول کی روانی کے ساتھ بہتی رہی۔ کہیں کہیں ہلکی ہلکی ہیجان خیزی سے دامن بچا کر ادھر ادھر بھی ہوتی رہی۔ لیکن کہیں بھی بور ہوئے بغیر پڑھ لیا۔
اگر آپ بھی زمانے کی کشاکش سے دور حسرت و یاس، امید و نومیدی کے پنڈولم میں جھولنا چاہتے ہیں تو انتظار حسین کا نام ہی کافی ہے۔ وہاں ایک روپ نگر تھا، ایک ویاس پور تھا اور ایک میرٹھ تھا… پھر دلی تھا۔
.
آگے پاکستان تھا، واہگہ تھا اور لاہور تھا۔ روپ نگر میں ایک وسنتی تھی اور ایک صابرہ عرف سبو تھی۔ اس کے بعد کئی کنیہائیں آتی رہیں اور جاتی رہیں۔ وہیں ایک سریندر تھا، جو ایک اچھا دوست تھا… آخر میں جب مصنف اور وہ دونوں اپنے اپنے علاقوں کی جانب مڑے، تو تقسیم کا ہولناک نقشہ قاری کی نظروں میں واضح ہو گیا۔ یہی سریندر بعد میں صابرہ کے بارے میں اطلاعات کا ذریعہ بنا۔ آپ پوچھیں گے کیا سبو سے ذاکر کا ملن ہوا؟ یہ جاننے کے لیے بستی پڑھیے۔ اب سب کچھ ہم تو ناہیں بتائے ہیں۔
جب پاکستان کا احوال شروع ہوا تو علم ہوا کیسے بادشاہ فقیر ہوئے اور فقیر بادشاہ۔ وہی جنگ کا نقشہ، پھر سقوطِ ڈھاکہ کا کرب، جو آپ خود پڑھ کر ہی محسوس کر سکتے ہیں۔
اور ہاں سلامت اور اجمل بھی تو تھے، جن کی روح انقلابی تھی… پر وہ بعد میں توبہ تائب ہو گئے۔ ساتھ سلامت کے والد خواجہ صاحب تھے، جو سلامت کے بھائی کرامت کی کھوج میں تھے۔ کرامت ڈھاکہ گیا تھا، جہاں سے وہ لاپتہ ہو گیا تھا۔
.
ایک افضال تھا جو اچھے لوگوں کی فہرست بناتا رہتا تھا۔ وہ خوبصورت پاکستان کے خواب دیکھتا تھا۔ جس نے ایک مربعہ زمین پر گلاب اگانے تھے۔
پھر نظام کے خلاف بولنے والا زوار تھا جو بالآخر اسی نظام کا حصہ بن گیا۔
ایک سفید سر والا آدمی تھا، جس کے سر کے بال پاکستان ہجرت کرتے وقت ایک دن میں سفید ہو گئے تھے۔
سب سے بڑھ کر ذاکر کی امی تھیں، جن کو یہ فکر تھی کہ ہندوستان والے گھر کی چابیاں گم نہ ہو جائیں۔ جب ابا جان نے دمِ آخر وہ چابیاں ذاکر کو دیں تو انہیں بھی یہی تشویش لاحق تھی کہ کہیں چابیوں کو زنگ نہ لگ گیا ہو۔
بیچ بیچ میں فلسفے کا تڑکا بھی خوب رہا۔
ہے راجہ، نو چیزوں کا نو چیزوں سے پیٹ نہیں بھرتا؟
کن نو چیزوں کا کن نو چیزوں سے پیٹ نہیں بھرتا؟
ساگر کا ندیوں کے پانی سے، اگنی کا ایندھن سے، ناری کا بھوگ سے، راجہ کا راج پاٹ سے، دھنوان کا دھن دولت سے، ودوان کا ودیا سے، مورکھ کا موڑنا سے، اتیاچاری کا اتیاچار سے۔
.
اور کچھ نپا تلا گیان دھیان۔
ہے منی مہاراج میں کیسے چلوں؟
سوریہ کے اجالے میں چل۔
سوریہ جب ڈوب جائے پھر؟
پھر تو چندرماں کے اجالے میں چل۔
چندرماں ڈوب جائے، پھر؟
پھر تو دیا جلا، اس کے اجالے میں چل۔
دیا بجھ جائے، پھر؟
پھر تو آتما کا دیا جلا، اس کے اجالے میں چل۔
ابا جان نے ذاکر کو چابیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے ان کو زنگ نہیں لگنے دیا، اب ان کو بچانا تمہاری ذمہ داری ہے۔ یہ بہت
عروج کی یہی تو خرابی ہے۔ اس عالم میں یہ گمان ہی نہیں گزرتا کہ اس عروج کو زوال بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ اور جب زوال شروع ہوتا ہے تو اسے بیچ میں روکا نہیں جا سکتا۔ زوال اپنی انتہا تک پہنچ کر دم لیتا ہے۔
اگر آپ بستی ناول پڑھنے کا پوچھیں گے تو میرا جواب ہو گا، ہمبے۔
#FFKhan
#FFK