ڈگری بنگلہ – ٹھنڈیانی – ایبٹ آباد

ڈگری بنگلہ

یہ ایک سحر انگیز صبح کا آغاز تھا۔ سورج کی نرم کرنیں دھیرے دھیرے پہاڑیوں پر اپنے پھیلا رہی تھیں۔ میں ڈگری بنگلہ کے کمرے کی قد آدم کھڑکی میں اپنی راکنگ چئیر پر براجمان تھی اور صبح کے بہترین آغاز کے لیے مجھے کافی کا انتظار تھا۔ کھڑکی کے شیشے سے باہر تاحد نگاہ خوبصورت قدرتی مناظر آنکھوں کو تراوٹ بخش رہے تھے۔ طلوعِ آفتاب کا مسحور کن منظر اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے میں کھڑکی بند ہونے کے باوجود بھی محسوس کر سکتی تھی۔

جنوبی ایشیاء ان دنوں جھلسا دینے والی گرمی کی لپیٹ میں تھا لیکن یہاں کا موسم حیرت انگیز طور پر خوشگوار تھا۔ جی ہاں آپ درست سمجھے، میں اس وقت ٹھنڈیانی کے مقام پر اپنی نئی سرکاری رہائش گاہ پر موجود تھی۔ یہ رہائش سرکار بہادر کی جانب ایک خاتون افسر کی خدمات کے اعتراف میں دی گئی تھی۔ اول تو ان دنوں ملازمت پیشہ خواتین خال خال ہی نظر آتی تھیں لیکن کسی اعلٰی ترین عہدے پر کسی خاتون کا پہنچ جانا کسی معجزے سے کم نہ تھا۔ میری تعیناتی ایبٹ آباد جیسے پرفضا مقام پر بہترین رہائشی سہولت کے ساتھ کی گئی جس کا نام ڈگری بنگلہ تھا۔

ٹھنڈیانی

ٹھنڈیانی کی بلندی سطح سمندر سے بلندی ۸۹۲۳ فٹ ہے۔ اس کا اصل نام ڈگری نکہ تھا جو سر سبز پہاڑیوں کے دامن میں اپنے نام کی عملی تفسیر تھا۔ اس کے اردگرد کے جنگلات میں نایاب نسل کے جنگلی جانور اور چیتے بکثرت پائے جاتے تھے۔ ڈگری نگلہ دراصل سرکار بہادر نے جنگلات کی حفاظت کے لیے تعینات حفاظتی اہلکاروں کی رہائش کے لیے مخصوص کر رکھا تھا تاکہ وہ ایبٹ آباد کے پرسکون ماحول میں باآسانی اپنے فرائض سر انجام دے سکیں۔ بٹلر میرے سامنے کافی کی پیالی رکھ گیا تھا… اسی دوران مجھے اپنے سیکریٹری کی آمد کی اطلاع ملی۔ میں تھوڑی دیر میں تیار ہو کر باہر آ گئی…

سیکریٹری مجھے دن بھر کے شیڈول سے آگاہ کر رہا تھا جس میں سرِ فہرست ہندوستان کے وائسرائے کی متوقع آمد کے ضمن میں حفاظتی انتظامات تھے تاکہ وائسرائے بہادر کو شکایت کا موقع نہ مل سکے۔

چیتا

میں دفتر کی جانب رواں دواں تھی۔ سیکریٹری بریف کیس تھامے آگے آگے چل رہا تھا… گھنے جنگل کے بیچوں بیچ قدرے تنگ راستے کی خوبصورتی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہوئے میں بظاہر سیکریٹری سے دفتری معاملات پر تبادلہ خیال کر رہی تھی۔ مگر میرا دهیان ان سر سبز وادیوں میں بھٹک رہا تھا۔

اچانک سیکریٹری کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے جنگلی درندے کی سرسراہٹ محسوس کی جو پچھلی جھاڑیوں میں گم ہو گیا تھا… میں صورت حال سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ میری نظر چیتے پر پڑی۔ وہ چند فرلانگ کے فاصلے سے اپنی خوں خوار نظروں سے مجھے گھور رہا تھا… میرے بدن میں خوف سے پھریری دوڑ گئی… میں نے حفاظتی تدابیر کی تربیت لے رکھی تھی تاہم اچانک پیش آنے والی صورت حال نے میرے حواس مختل کر دیئے تھے۔

درندہ لمحہ بہ لمحہ ہمارے نزدیک ہوتا جا رہا تھا اور کسی وقت بھی حملہ آور ہو سکتا تھا۔ میں خود میں اس سے مقابلہ کرنے کی سکت نہیں پا رہی تھی… گردن گھما کر سیکریٹری سے عندیہ لینا چاہا مگر وہ جانے کس وقت رفو چکر ہو چکا تھا۔ میں خوف سے منجمد ہو گئی… میرے قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے تھے۔ میں آگے بڑھ سکتی تھی نہ پیچھے ہٹ سکتی تھی۔ جنگلی درندہ اپنے تمام تر ہولناک عزائم کے ساتھ قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا تھا… اچانک اس نے خوفناک دہاڑ کے ساتھ مجھ پر حملہ کر دیا۔ میں تصور میں اپنے چیتھڑے اڑتے دیکھ کر چلا اٹھی۔

”بچاؤ۔“

میں زندہ تھی

میرے حلق سے انتہائی دلدوز چیخ بلند ہوئی… جس نے گھر کے در و بام ہلا دیئے۔ میں نے دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز سنی۔ میرے لاشعور نے مجھے بتایا میں زندہ ہوں۔

چند آوازوں نے میری سماعت پر دستک دی…

کیا ہوا؟؟

کیا ہوا؟؟

تم ٹھیک ہو؟؟ تم چیخ کیوں رہی تھیں؟

شاید اس نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہے۔

ان جانی پہچانی آوازوں کو شناخت کرتے میں نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔ میرا پورا وجود پسینے میں شرابور تھا۔

میں نے خود کو چھو کر دیکھا۔

اوہ خدایا، کیا یہ خواب تھا…!!

اگر یہ واقعی خواب تھا تو انتہائی بھیانک تھا۔

اور اللہ کا شکر یہ محض ایک خواب ہی تھا۔

جام ساقی میرا ہاتھ تھامے کھڑا تھا اور آدرش کے ہاتھ میں پانی کا گلاس تھا۔

میں نے غٹا غٹ پانی پی کے سوچا شکر ہے میں ابھی زندہ ہوں۔

ایبٹ آباد

نئی زندگی کی نوید ملنے کے بعد ایک نیا صفحہ پلٹ کر معمول کی جانب لوٹتے ہیں۔ آئیے میرے ساتھ موجودہ ڈگری بنگلہ کے ایک خوشگوار سفر کا آغاز کیجئے۔ یہ ایبٹ آباد کے مضافاتی علاقے پھلکوٹ کے محلے کٹلی میں واقع ہے۔ بنیادی طور پر یہ بنگلہ گلیات کے جنگلات کی حفاظت پر مامور اس عملے کے لیے بنایا گیا تھا جو انگریز حکومت کی جانب سے تعینات کیا جاتا تھا۔ آزادی کے فوراً بعد اس بنگلے کو وزارتِ جنگلات کی تحویل میں دے دیا گیا۔

محکمہ جنگلات نے اس کی اصل شناخت برقرار رکھنے کی سعی کی تاہم ۲۰۰۵ء کے زلزلے نے اس عمارت کو کافی نقصان پہنچایا۔ اس کی ناگفتہ بہ حالت نے اسے بھوت بنگلے سے مشابہ شکل دے دی تھی۔ اس کی جانب جانے والے راستے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان سے جڑی متنوع کہانیاں مشہور ہیں۔ ان میں سرِ فہرست جنوں اور بھوتوں کے فرضی قصے ہیں۔

لفظ ٹھنڈیانی کا مقامی زبان میں مطلب ہے ٹھنڈی ہوا۔۔۔ نتھیا گلی، کوہستان اور وادیٔ کاغان سے خوشبوؤں سے لدی ہوئی خوشگوار ہوا جب ٹھنڈیانی کا رخ کرتی ہے تو اس کی فضا کو معطر کر دیتی ہے۔ ٹھنڈیانی جانے والی سڑک بہترین حالت میں ہے اور تقریباً سارا سال کھلی رہتی ہے۔ سردیوں میں اس علاقے کے گرد و نواح کے پہاڑ سفید چادر اوڑھ لیتے ہیں۔

ﮈگری بنگلہ کی جانب تین راستے جاتے ﮨﯿﮟ۔

پہلا ٹریک

سب سے لمبا، آسان اور سب سے خوبصورت ٹریک میرانجانی سے بھیرن گلی والا ہے۔ اس کی ﺷﺮﻭعاتی چڑهائی ذرا مشکل ہے۔ میرانجانی ٹریک ڈگری بنگلہ ٹریک سے الگ چلتا ہے۔ میرانجانی گلیات کی سب سے اونچی چوٹی ہے۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻠﻨﺪﯼ ﺳﻄﺢ ﺳﻤﻨﺪﺭ سے ۹,۷۷۶ فٹ یعنی ۲,۹۸۰ میٹر ہے۔ ڈگری بنگلہ سے ٹھنڈیانی کا یہ ٹریک پرکشش مناظر پیش کرتا ہے۔

ﺩﻭﺳﺮﺍ ﭨﺭﯾﮏ

ﺩﻭﺳﺮﺍ ٹریک بھی میرانجانی سے ہو کر جاتا ہے۔ یہ ٹریک ٹھنڈیانی سے ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻭﺗﺎ ﮨو کر بھیرﻥ گلی ﮐﯽ ﻃﺮﻑ سے ڈگری بنگلہ کے پاس پہنچ کر ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور ٹریک بھیرن گلی سے میرانجانی جاتا ہے۔ یہ نسبتاً آسان ٹریک ہے۔ ٹریکرز اپنی پہلی ٹریکنگ کا آغاز اسی راستے سے کرتے ہیں۔ یہ ٹریک کیمپنگ کرنے والوں کے لیے بہترین ہے کیوں کہ صاف شفاف پانی کا ایک نالہ اس کے ساتھ ساتھ بہتا ہے۔ مزید برآں یہ رہائشی علاقوں سے مناسب دوری پر واقع ہے۔

تیسرا ٹریک

تیسرا اور سب سے چھوٹا ٹریک پھلکوٹ کی جانب سے جاتا ہے۔ پھلکوٹ سے ڈگری بنگلہ تک پہنچنے کے لیے مسلسل دو گھنٹے کی ٹریکنگ کرنا پڑتی ہے۔

ڈگری بنگلہ کی عمارت کی حالت ناگفتہ بہ ﺍﻭﺭ قابل مرمتی تھی، اس کی بحالی کے لیے رقم مختص کی گئی۔ فی الحال اس میں تین کمرے رہائش کے لیے دستیاب ہیں۔ ایک چوکیدار اس عمارت کی دیکھ بھال کرتا ہے اور بوقت ضرورت سیاحوں کو گائیڈ کی خدمات بھی مہیا کرتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ جگہ کیمپنگ کے لیے خطرناک ہے۔ رات کے وقت جنگلی جانور حملہ آور ہو سکتے ہیں۔

تحریر: فہمیدہ فرید خان

Translated by: Fehmeeda Farid Khan

See Original Blog: Dagri Bungalow Story

9 thoughts on “ڈگری بنگلہ – ٹھنڈیانی – ایبٹ آباد”

  1. I’ve been browsing on-line greater than 3 hours today, but I by no means discovered any interesting article like yours.
    It is lovely price enough for me. In my opinion, if all website owners and bloggers made excellent content material as you probably did, the
    net can be much more useful than ever before. natalielise
    pof

    Reply
  2. Having read this I believed it was extremely
    informative. I appreciate you finding the time
    and energy to put this informative article together.
    I once again find myself spending way too much time both reading and posting comments.
    But so what, it was still worth it!

    Reply
  3. With having so much written content do you ever run into any issues of plagorism or copyright infringement?

    My website has a lot of completely unique content I’ve either created myself
    or outsourced but it appears a lot of it is popping it up all over
    the web without my agreement. Do you know any techniques to
    help stop content from being ripped off? I’d really
    appreciate it.

    Reply

Leave a Comment