حریمِ عشق از غزل زیدی
کروں سجدہ ایک خدا پڑھنے کے بعد میں سیدہ غزل زیدی کی مزید کتب پڑھنے کا خواہاں تھا۔ لیکن کسی نہ کسی وجہ سے یہ کام التوا میں پڑ جاتا تھا۔ میرا ماننا ہے جو کام جس وقت خیر کے ساتھ لکھا ہوتا ہے، تب ہی ہوتا ہے۔ مصنفہ کی چند کتب 2023 میں شائع ہونا تھیں۔ ایک نہیں، دو نہیں پوری تین نئی کتابوں کی غزل صاحبہ کو بہت مبارکباد۔
زیرِ نگاہ ناول بہت ہی زبردست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ واقعی ناول ہے۔ جی ہاں ناول کیوں کہ آج کل جیسا چربہ لکھا جا رہا ہے، اس سے تو بہت اچھا ہے۔ پہلے دور جیسا لکھا، جو مجھے بہت پسند آتا ہے۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ارحام کی نوجوانی میں اس کے ہاتھوں بائیک حادثے میں ایک سولہ سالہ لڑکا مر جاتا ہے۔ ارحام کا پچھتاوا اسے لڑکے کے گھر لے جاتا ہے۔ وہاں اس کی جڑواں بہن یمنا اسے اپنے بھائی کا قاتل سمجھتی ہے۔ وہ اپنا سارا غصہ اس پر اتارتی ہے۔ ایک طویل عرصہ تک ارحام اور یمنا اپنے نفسیاتی عارضے سے لڑتے رہتے ہیں۔ بہر حال ارحام زندگی میں آگے بڑھ جاتا ہے۔ لیکن پچھتاوا اسے یمنا سے شادی کرنے کے لیے اکساتا رہتا ہے۔ دونوں کے گھر والے بھی یہی چاہتے ہیں۔
۔
یمنا کے لیے وقت جیسے وہیں رک جاتا ہے۔ جب اویس اس سے فون پر بات کرتے کرتے ارحام کی بائیک سے ٹکرا کر فوت ہو جاتا ہے۔ چھ سال گزرنے کے بعد بھی یمنا کی نفرت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔
دوسرے حصے میں حریم ہے۔ جس کی ملاقات ارحام سے سول سروسز اکیڈمی میں ہوتی ہے۔ ارحام ایک مصور بھی ہے۔ وہیں سے وہ حریم کے عشق میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھیں اس مسحور کر دیتی ہیں۔ وہ حریم کی تصویر بنانے لگ جاتا ہے۔ یمنا کے پچھتاوے سے نکل کر وہ حریم کی طرف بڑھتا ہے۔ تب اچانک یمنا ارحام کی طلب گار بن جاتی ہے۔
علی اور رامین کا حصہ بھی بہت اچھا لکھا گیا ہے۔
غصہ عشق، محبت، نفرت اور انتقام کی یہ داستان منفرد تو نہیں لیکن لکھنے کا انداز ضرور متاثر کن ہے۔
اختتام کیا ہو گا؟
یہ تجسس ہم قارئین کے لیے چھوڑے ہیں۔ اب چلو درد بانٹتے ہیں اور وہ جو قرض تھا بھی جلد پڑھوں گا۔ تاہم مصنفہ کے نئے ناول دامِ تزویز کا مجھے بے حد انتظار رہے گا۔ کیوں کہ اس کا موضوع بہت الگ اور دلچسپ ہے۔
نظرِ ثانی کے لیے فہمی باجی کا شکریہ
آپ آبان احمد کا گزشتہ تبصرہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔