مرے دل مرے مسافر – سفرنامۂ ناران

مرے دل مرے مسافر جس پل میں نے لائبریری کی سمت قدم بڑھائے، ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو چکی تھی۔ کئی دنوں سے تلاش کردہ کتاب تک رسائی حاصل کی اور واپسی کے لیے مرے قدم مڑے۔ میں نے آسمان کی طرف نگاہ کی۔ گزشتہ چند دنوں سے مسلسل حبس کی ہر طرف حکمرانی مسلط تھی۔ آج سیاہ مرغولے منظر عام پہ آئے تو آکاش کا سینہ شق ہونے پہ مجبور ہوا۔ خشک مٹی پر بوندیں پڑیں تو گیلی مٹی کی مسحور کن خوشبو مرے ہر سو پھیل گئی۔ گجرات قائداعظم بلاک کے پاس سے گزرتے ہوئے میری نگاہ اٹھی۔…
فرح ناز محمد کی ایک خوبصورت تحریر

سفرنامہ

سفرنامۂ ناران

فرح ناز محمد کی ایک خوبصورت تحریر

User Rating: 3.53 ( 7 votes)

مرے دل مرے مسافر

جس پل میں نے لائبریری کی سمت قدم بڑھائے، ہلکی ہلکی پھوار شروع ہو چکی تھی۔ کئی دنوں سے تلاش کردہ کتاب تک رسائی حاصل کی اور واپسی کے لیے مرے قدم مڑے۔ میں نے آسمان کی طرف نگاہ کی۔ گزشتہ چند دنوں سے مسلسل حبس کی ہر طرف حکمرانی مسلط تھی۔ آج سیاہ مرغولے منظر عام پہ آئے تو آکاش کا سینہ شق ہونے پہ مجبور ہوا۔ خشک مٹی پر بوندیں پڑیں تو گیلی مٹی کی مسحور کن خوشبو مرے ہر سو پھیل گئی۔

گجرات

قائداعظم بلاک کے پاس سے گزرتے ہوئے میری نگاہ اٹھی۔ سامنے ہلکی ہلکی بارش میں بھیگتے، بالوں کے چند الجھے ہوئے لچھے ماتھے پر بکھیرے، سگریٹ کا دھواں فضا میں شامل کرتے مرے پسندیدہ شاعر چلے آ رہے تھے۔ ان کے چند قدم قریب آنے پر مرے منہ سے بلا اختیار نکلا۔

دل کوئی پھول نہیں، اور ستارہ بھی نہیں

کارِ دنیا کا نہیں اور تمہارا بھی نہیں

وہ ٹھٹک کر رکے۔ پھر زیرِ لب مسکرا دیئے۔۔۔ ”کتاب لیے جا رہی ہو، ہمممم۔۔۔ خانہ بدوش۔“ مرے ہاتھ سے تھامی کتاب الٹ پلٹ کر دیکھی۔ چاچا جی بندے کو چین نہیں لینے دیتے۔ پڑھواتے ”سفر شمال کے“ ہیں اور پھر سیدھا ”منہ ول کعبے شریف“ کروا دیتے ہیں۔ کتاب میرے ہاتھ سے لے کر ورق گردانی شروع ہو چکی تھی۔ میں ان کی بات میں کھو گئی تھی۔ چاچا جی چین نہیں لینے دیتے، کیسے؟ اور وہ منظر یوں تحلیل ہوا جیسے خواب تھا کوئی۔۔۔ مگر اس بات کا عملی اطلاق اس قدر جلدی ہونے والا تھا مجھے اندازہ نہیں تھا۔

شنیدِ سفر

خانہ بدوش کے ساتھ سفر کرتے ہفتہ ہونے کو آیا تھا۔ افغانستان کے ریتلے پہاڑ اور میدان کتاب سے باہر جھانکنے کو بے تاب دکھائی دینے لگے۔ اس کے ساتھ ہی مرے اندر سویا ہوا مندوب بھی چھوٹی موٹی انگڑائیاں لیتا ہوا بیدار ہونے لگا۔ سفر نامے میں بڑی کشش ہوتی ہے۔ پڑھنے والا لکھنے والے کی آنکھ سے سفر کرتا اور مناظر کو دل کی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ میں بھی چاچا جی کے ساتھ محوِ سفر تھی۔ ایک بے تاب سیاح جو مرے اندر ہمک رہا تھا، ساتھ ساتھ اسے تھپکیاں دے کر سلانے کا عمل بھی جاری تھا۔

یکم اگست 2021ء کو میری ایک دوست کا پیغام موصول ہوا کہ فرصت ہے تو اگلے ہفتے مرے ساتھ شمال کو چلو۔ اندھا کیا چاہے، دو آنکھیں کے مصداق خوشی سے سرشار ہم تیاریوں میں مگن ہو گئے۔ پانچ اگست کی شام گجرات سے وزیر آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ چناب خراماں خراماں بہتا چلا جا رہا تھا۔ ہلکی ہلکی سبک رو ہوا کے سنگ ڈوبتا نارنجی گولہ شام کو اداسی کے پیرہن میں لپیٹ چکا تھا۔ اس منظر سے نگاہ چرانا مرے لیے ممکن نہیں تھا سو گاڑی رکوائی اور دریا کنارے چائے کا دور چلا۔ مغرب کی اذان وزیر آباد میں سنی۔

آغازِ سفر

دوست کے ہاں پہنچتے ہی تیاری کا سلسلہ شروع ہوا جو رات گئے تک چلتا رہا۔ ٹور ایجنسی کی طرف سے رات 12 بجے کا وقت دیا گیا تھا۔ گیارہ بجے ہم روانہ ہوئے۔ تیز آندھی اور موسلا دھار طوفانی بارش نے جی ٹی روڈ پر ہمارا خیر مقدم کیا۔ وزیر آباد میں تمام دوست جمع ہوئے تھے۔ تقریباً ایک بجے کے قریب ہماری روانگی وزیر آباد سے ہوئی۔

گاڑی کھاریاں رکی تو نیند سے میری آنکھیں بوجھل تھیں۔ مگر گاڑی میں دورانِ سفر سونا مجھے ہمیشہ سے سفر کی توہین لگتا ہے۔ سو گاڑی سے اتر کر آدھا گھنٹہ ”میاں جی ہوٹل“ کے احاطے میں چہل قدمی کی۔ مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی وجہ سے کھاریاں رات کے وقت روشنیوں میں ڈوبا ہوا کسی راجہ کا محل معلوم ہوتا تھا۔ رات تین بجے کھاریاں سے روانہ ہوئے۔ اسلام آباد پہنچتے پہنچتے صبح صادق طلوع ہو چکی تھی۔ تمام ساتھی سیاح پر سکون نیند میں تھے جب کہ میں پو پھٹنے کے انتظار میں مسلسل جاگ رہی تھی۔

ہزارہ موٹر وے

اسلام آباد میں ڈائیوو اسٹیشن پر رک کر باقی ساتھیوں کو لیا گیا۔ وہیں نمازِ فجر ادا کی گئی۔ پھر شروع ہوا سفر ہزارہ موٹر وے کے دل و جاں موہ لینے والے دلکش نظاروں کی جانب۔ سڑک کی دونوں اطراف کھڑے دیو ہیکل پہاڑ سبزے سے لدے ہوئے تھے اور بازو کھولے خوش آمدید کہتے ہوئے نظر آتے تھے۔ میری نگاہ ہٹتی نہیں تھی۔ ہمارا پہلا قیام بالاکوٹ میں تھا۔ وہاں سے ناشتہ کر کے تازہ دم ہونے کے بعد وادی کاغان کی جانب رخ کرنا تھا۔

بالاکوٹ

بالاکوٹ شہر تاریخی لحاظ سے قدیم اور اہم شہر ہے۔ سید محمد احمد مرہٹوں سے لڑتے لڑتے بالاکوٹ کے مقام پر شہید ہوئے تھے۔ اس شہر میں ان تمام شہداء کی قبریں بھی موجود ہیں۔ 2005 کے زلزلے میں بالاکوٹ پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی اور پورا شہر منہدم ہو گیا تھا۔ شہر کی تعمیر از سر نو کی گئی یے۔ اب بالاکوٹ واپس زندگی کی طرف لوٹ چکا ہے۔ اس شہر کے راستے پُر پیچ چڑھائیوں اور اترائیوں پر مشتمل ہیں۔ ڈرائیور کا مہارت رکھنا اور راستوں سے اچھی طرح واقف ہونا بہت ضروری ہے۔

سڑک کی دونوں طرف گھنے جنگلات اپنی چھب دکھلا رہے تھے۔ گاڑی جب چڑھائی سے اترائی کی جانب مڑی تو نگاہ کے سامنے پہاڑی چوٹی پر چند فوجی جوان مستعدی سے اپنے فرائض انجام دیتے دکھائی دیئے۔ میری نگاہ میں وہ منظر آج بھی تازہ ہے۔ ساتھیوں نے جوش و خروش سے ہاتھ ہلا ہلا کر سلام کیا۔ جواب میں جوانوں کی طرف سے سلیوٹ پیش کیا گیا۔ یہ منظر آج بھی سوچوں تو لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ دس بج چکے تھے جب ہم کنہار کے کنارے پہنچ کر تازہ دم ہوئے۔ پھر مزیدار ناشتے سے لطف اندوز ہوئے۔

سیف الملوک/پریوں کی جھیل

ناران کی طرف نکلیں تو آپ کو جگہ جگہ جنت کا گمان ہوتا ہے۔ ایک طرف بلند و بالا پہاڑوں کی برف سے ڈھکی ہوئی چوٹیاں۔ دوسری طرف زور و شور سے بہتا کنہار۔۔۔ یہاں آپ کو دراز قامت چیڑ، دیودار کے درخت اور خودرو پھولوں کی بہتات نظر آئے گی۔ دن ایک بجے ہم اپنی قیام گاہ، ناران بازار میں موجود ہوٹل میں پہنچے۔ ہوٹل کہیں یا سرائے، اک عالم بہشت سمجھیے۔ چہار جانب ایستادہ پہاڑ، منظر میں کنہار کے بہنے کا شور ہے اور اس قدر سکون ہے۔۔۔ موسم یک دم بدل گیا تھا۔ ہم نے جلدی سے اپنے اپنے کمروں میں سامان منتقل کیا اور انتظار میں کھڑی جیپوں کی طرف دوڑ لگائی۔ ارادہ تھا شام سے پہلے جھیل سیف الملوک کا نظارہ کر لیا جائے۔

جھیل پر پہنچنے کے دو طریقے ہیں۔ مقامی جیپ یا گھوڑے۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس کوئی متبادل ذریعہ نہیں۔ جھیل تک کا راستہ خطرناک ترین ہے۔ دل گردے پھیپھڑے سب آپس میں گتھم گتھا ہو جاتے ہیں۔ ہمارا بھی یہی حال تھا۔ خدا خدا کر کے یہ خطرناک سفر اپنے انجام کو پہنچا اور ہم نے پریوں کے دیس میں قدم رکھا۔ جھیل سطح سمندر سے دس ہزار پانچ سو فٹ (10,500) کی بلندی پر واقع ہے۔ مشہور ہے کہ جھیل کے پانی میں رات کے وقت پریاں اترتی ہیں۔ ہماری لغت میں تو پریوں کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ لیکن شہزادہ سیف الملوک صاحب نے پریاں دریافت کر کے اس کچے پکے عقیدے پر مہر ثبت کر دی تھی۔

حسنِ مجسم

جیب سے اتر کے جب آنکھوں کے سامنے موجود مناظر پر نگاہ پڑتی ہے تو سفر کی ساری کلفت زائل ہو جاتی ہے۔ بادلوں کے مرغولے ادھر سے ادھر اڑتے پھرتے ہیں۔ جھیل اور اس کے دونوں پہلوؤں میں کھڑے اس کے محافظ پہاڑ جیسے کسی فریم میں قید کوئی منظر۔۔۔ ہر دم یہی لگتا ہے کہ گھوڑا دوڑاتا سیف الملوک پہاڑوں کے پیچھے سے برآمد ہو گا۔ یا کسی پہاڑ کی درز سے اس کی دلربا محبوبہ پری جھانک رہی ہو گی۔ بس یہیں کہیں، اسی لمحے۔۔۔

جھیل کی فسوں خیزی میں چار چاند اس پل لگتے ہیں جب جھیل پر موجود مسجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہو کر ہیبت طاری کر دیتی ہیں۔ انسان دم سادھے خدائے واحد کے حضور اپنے دل کو مزید جھکاتا چلا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ جھیل سیف الملوک ایک ایسا شاہکار ہے جو آپ کی دیکھنے والی آنکھوں کا منتظر ہے۔ مرے دل کا ایک حصہ جھیل کی طلسم نگری کے حوالے ہوا۔ ہم نے شام ڈھلنے سے پہلے واپسی کے لیے رخت سفر باندھ لیا۔

ناران

ہوٹل پہنچ کر مرے سب دوست اکٹھے ہوئے اور ایک خوبصورت عشائیے کا اہتمام ہوا۔ ناران بازار میں آپ کو ہر قسم کے ہوٹل مل جائیں گے۔ فور اسٹار سے جدید لگژری محلوں جیسے ہوٹل۔ جن پر روشنیوں کی سجاوٹ ناران کو مزید خوبصورت بناتی ہے۔ ہمارا قیام ”ناران ماؤنٹین شیلے“ میں رہا۔ صفائی اور کھانا، دونوں بہترین تھے۔ اس ہوٹل میں قیام کا تجربہ بہترین رہا۔ کوئی بدمزگی نہیں ہوئی۔

اگلی صبح چمکدار طلوع ہوئی تھی۔ بھر پور نیند لینے کے بعد میں علی الصبح بیدار ہو گئی۔ تازہ دم ہو کر کمرے سے باہر نکلی تو مرے سارے ساتھی سیاح تا حال سوئے پڑے تھے۔ میں نے اپنی اکیس سالہ زندگی میں اتنی حسین صبح شاید پہلی بار ہی دیکھی تھی۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر سنہری کرنیں پڑ رہی تھیں۔ پرندوں کی خوبصورت چہکاریں اور پس منظر میں بہتا کنہار اور ٹھنڈی میٹھی صبح۔ میں ننگے پیر نرم گھاس کے نم آلود قالین پر چہل قدمی کرنے لگی۔ اس دوران حاجی صاحب بیدار ہو چکے تھے۔ وہ ہمارے ڈرائیور تھے۔ پینسٹھ سال کے لگ بھگ باریش سے حاجی صاحب کی آنکھوں میں شرارت دور سے دکھائی دیتی تھی۔ مجھ سے نیند کے متعلق ایک آدھ سوال پوچھ کر حاجی صاحب اذکار میں مشغول ہو گئے۔

درہ بابو سر

یکے بعد دیگرے مرے تمام دوست بیدار ہونے لگے۔ ناشتے کا اہتمام ہوٹل کے صحن میں میز کرسیاں لگا کر کیا گیا تھا۔ مزیدار ناشتہ کے بعد ہم بابو سر ٹاپ کی طرف روانہ ہوئے۔ بابو سر ناران کا بلند ترین مقام ہے۔ وادی بابو سر کی بڑی دلچسپ وجۂ تسمیہ معلوم ہوئی۔ ”سر“ شینا زبان میں جھیل کو کہتے ہیں۔ اس علاقے میں سڑک کی تعمیر کا سوال پیدا ہوا تو ایک وجیہہ سا افسر سروے کے لیے آیا۔ راستہ بہت دشوار گزار اور کٹھن تھا۔ وہ جان جوکھوں میں ڈال کر علاقے کی دو جھیلوں کو عبور کر کے آگے پہنچا۔ سیدھے سادھے دیہاتیوں نے اسے بابو کہتے کہتے علاقے کو ہی بابو سر کہنا شروع کر دیا۔ میرا گلگت و ہنزہ (از سلمٰی اعوان)

یہاں نومبر میں شروع ہونے والی برف باری مئی تک جاری رہتی ہے جس سے تمام راستے بند ہو جاتے ہیں۔ تب سیاحوں کے لیے بابو سر کو مکمل طور پر بند کر دیا جاتا ہے۔ مئی کے اواخر میں برف پگھلتی ہے تو جھیلوں کے سینے بھرتے ہیں۔ راستے کھول دیئے جاتے ہیں۔ بابو سر جاتے ہوئے نہ رکنا ہی عقل مندی ہے۔ آپ گاڑی سے قدرت کے شاہکار دیکھتے ہوئے جائیں۔ بڑاوائی اور بٹہ کنڈی میں آنکھوں کو ساکت کر دینے والے نظارے ہیں۔

مون ریسٹورینٹ

بابو سر جاتے ہوئے راستے میں آپ کو سوہنی آبشار بھی دکھائی دے گی۔ وہ واقعی اس قدر سوہنی ہے کہ آپ چلتی گاڑی میں سے مڑ مڑ کر اسے دیکھتے ہیں۔ ایک سائن بورڈ، مون ریسٹورنٹ کا، جو اسلام آباد سے آپ دیکھتے ہوئے آتے ہیں۔ بالآخر بیسر کے مقام پر آپ کو لکھا نظر آئے گا ”مون ریسٹورینٹ، آخر مل ہی گیا۔“ مرے دل نے چپکے سے بولا شکر الحمدللہ کچھ تو مل گیا۔ بیسر میں رک کر دوپہر کا کھانا کھایا گیا۔

مجھے چند چھوٹے چھوٹے مقامی بچے مل گئے جو قہوہ بیچ رہے تھے۔ میں نے کچھ وقت ان کے ساتھ گزارا۔ دوبارہ سفر شروع ہوا اور بارہ بجے ہم ٹاپ پر تھے جہاں سیاحوں کا جم غفیر تھا۔ وہاں مرے پٹھوں کو منجمد کر دینے والی شدید ٹھنڈ تھی۔ اونی ٹوپی اور لیدر جیکٹ مجھے ناکافی محسوس ہونے لگی۔ چند تصاویر لینے کے بعد حفظ ماتقدم کے طور پر میں واپس گاڑی میں بیٹھ گئی۔ واپسی پر کچھ ساتھیوں نے بس کی چھت پر چڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ حاجی صاحب نے کافی ضد کی کہ کاکی تم بھی چلو اوپر۔ میں نے گھبرا کر شیشہ ہی بند کر دیا۔ ان کی رگِ ظرافت پھڑک رہی تھی مگر میری حسیات فی الحال کام کر رہی تھیں۔

لولو سر جھیل

بابو سر سے واپسی پر ہمارا قیام اس خوبصورت جھیل پر تھا۔ گہرے سبز رنگ کی یہ جھیل ناران کی جھیلوں میں سے سب سے بڑی ہے۔ اس کی ہیئت انگریزی کے حرف ڈبلیو سے ملتی جلتی ہے. جھیل کا پانی ہر لحظہ رنگ بدلتا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں پر ٹراؤٹ مچھلی بھی اٹھکیلیاں کرتی ہوئی دکھائی دے جائے گی۔ میں دوستوں کے ہمراہ قدرے گہرائی کی طرف اتر گئی۔ باقی سب ساتھی بھی ادھر ادھر پھیل گئے۔ ہم نے جی بھر کر فوٹو سیشن کیا۔ میں ایک بڑے پتھر پر جھیل کے پانی میں پاؤں لٹکا کر بیٹھ گئی۔ دل پروردگار کی صناعی اور کبریائی پر مزید جھکتا چلا جا رہا تھا۔ دو گھنٹے کیسے گزرے اندازہ نہیں ہوا۔

جب میں گاڑی میں داخل ہوئی تو ساتھی مسافر مرے لیے کھڑے ہو گئے۔ انہوں نے تالیاں بجاتے ہوئے ہمارا استقبال کیا کیوں کہ ہم ایک گھنٹہ تاخیر کا شکار تھے۔ یہاں سے ہم نے شہد اور خشک میوہ جات خریدے۔ وقت کی قلت کے پیشِ نظر واپسی پر حقیقی معنوں میں دوڑ لگی۔ حاجی صاحب نے گاڑی کچھ ایسے بھگائی کہ عائشہ بھابھی نے پیشن گوئی کر دی کہ یہ کنہار پہ رافٹنگ ہماری لاشوں سے کروائیں گے۔ ان کا ڈیڑھ سال کا بیٹا گھبرا کر رونا شروع ہوا تو حاجی صاحب نے خوفِ خدا سے کام لے کر رفتار قدرے کم کی تھی۔

دریائے کنہار

ہمارا اگلا پڑاؤ کنہار کنارے تھا۔ جہاں زِپ لائن اور رافٹنگ کا ارادہ تھا۔ یہ یقینی طور پر میری زندگی کی پہلی رافٹنگ تھی۔ لائف جیکٹ اور ہیلمٹ پہننے تک مجھے اندازہ نہیں تھا کہ یہ خطرناک ہو سکتی ہے۔ رافٹنگ گائیڈ کے ساتھ ایڈونچر سے بھر پور سفر شروع ہوا۔ لہروں کا بے تحاشا شور اور حسین لینڈ اسکیپ، بہت خوبصورت نظارہ تھا۔ میں دل ہی دل میں منظر قید کر رہی تھی۔ ایک کے بعد ایک تند و تیز لہر کشتی پر دھاوا بولنے لگی۔ ہم مکمل طور پر پانی سے شرابور ہو چکے تھے لیکن جوش و جذبہ کسی صورت کم نہیں ہو رہا تھا۔ شام ڈھلنے لگی تو ہم نے جلدی سے اپنا سامان سمیٹا اور ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔

بار بی کیو کا کباڑہ

آج بون فائر کا ارادہ تھا۔ سب لوگ صحن میں جمع تھے۔ ہم سب مختلف شہروں سے اکٹھے ہوئے تھے لاہور، گوجرانوالہ، وزیر آباد، گجرات اور اسلام آباد۔ آپس میں گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ موسیقی بج رہی تھی کہ ہم سب ایک عجیب صورت حال میں گرفتار ہو گئے۔ ہماری دوست کی طبیعت بے حد خراب ہو گئی۔ شاید کنہار کے ٹھنڈے پانی نے اس کے جسم کا درجہ حرارت بری طرح متاثر کر دیا تھا۔ بخار کی شدت کم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ ہم اسے نزدیکی کلینک لے گئے۔ دو اڑھائی گھنٹے وہیں رکنا پڑا۔ اس دوران بون فائر اور بار بی کیو ہو چکا تھا۔

واپسی پر ہم ناران بازار کا محض چکر ہی لگا سکے۔ بازار میں ہاہا کار مچی ہوئی تھی۔ فوڈ اسٹال اور دیگر دکانوں پر بے پناہ ہجوم تھا۔ ہم نے کچھ چادریں خریدیں۔ یادگار کے طور پر روایتی زیورات خرید کر ایک دوسرے کو تحفتاً دیئے اور ونڈو شاپنگ کرتے ہوئے واپس ہو لیے۔

اختتامی لمحات

اڑھائی بج چکے تھے۔ سب ایک ایک کر کے کمروں میں سونے جا چکے تھے۔ عبداللہ بھائی سگریٹ سلگائے بیٹھے تھے جب کہ احمد بھائی سر موبائل فون پہ گرائے ہوئے تھے۔ دفعتاً مجھے خیال آیا کہ دو دن سے نیٹ ورک نہ ہونے کی وجہ سے گھر والوں سے رابطہ نہیں ہو پایا۔ احمد بھائی سے وائی فائی کا پاسورڈ لے کر جیسے ہی رابطہ بحال ہوا پتہ چلا سال چہارم کی ڈیٹ شیٹ آ چکی ہے۔ میں نے گھبرا کر فون واپس رکھ دیا۔ پھر خود کو گجرات سے ناران میں لانے کی سعی کی اور سماعتوں کو بہتے کنہار کے شور کے سپرد کر دیا۔

جب آخری جلتی ہوئی لکڑی بھی ٹھنڈی پڑ گئی تب میں نے اپنی سیاہ شال کندھوں کے گرد لپیٹ کر ان سیاہ مناظر پر آخری الوداعی نگاہ ڈالی۔ آج یہاں قیام کی آخری رات تھی۔ دل خواہ مخواہ ہی اداسی کے گھیرے میں آنے لگا۔ میں نے دل سے نگاہ چرا کر قدم کمرے کی جانب بڑھا دیئے۔

کیوائی آبشار

اگلی صبح کافی ہلچل لیے ہوئے طلوع ہوئی۔ سامان سمیٹا گیا اور آخری پڑاؤ کی طرف رخت سفر باندھا گیا۔ ناشتہ کیوائی آبشار پہ کرنا تھا۔ سو ہم ایک پیالی چائے پی کر اپنی گاڑی کی طرف بڑھے۔ اس آبشار کی خاصیت ہے۔ یہاں ہوٹل موجود ہونے کے باوجود آبشار کے رواں پانی میں چارپائیاں بچھا کر حسین ماحول میں ناشتہ کیا جاتا ہے۔ کیوائی آنے تک محمد بن فہد (ننھا سا سیاح) مجھ سے قدرے مانوس ہو چکا تھا۔ میں محمد کی منہ بولی پھپو کے درجے پہ فائز ہو چکی تھی۔ میں اسے اٹھائے اٹھائے کیوائی آبشار کی سیر کر رہی تھی۔

اتنے میں ایک گلابی گالوں والا بچہ ہاتھ میں ایک کلو کے قریب ناشپاتی لے کر آیا۔ وہ اس کی قیمت پچاس روپے بتا رہا تھا۔ میں نے پیکٹ سے ایک ناشپاتی پکڑی اور مذاقاً بچے سے پوچھا، ”ہاں بھئی کتنے پیسے؟“ بچہ جھینپ گیا اور تھوڑی گردن سے چپکا لی۔ میں نے پورے پیکٹ کے پیسے دے دیئے۔ وہ چہکتا ہوا دوڑ گیا۔ وہ اکلوتی ناشپاتی میں نے اور حاجی صاحب نے ختم کی۔ کیوائی کا ناشتہ بہت ہی زبردست تھا۔ ہمارے چار پراٹھوں کے برابر ایک پراٹھا، ہری مرچ اور پیاز کا آملیٹ، شاہی چنے اور حلوہ۔ چائے بھی پنجاب جیسی مل گئی۔ (آخر کار) ناشتے کے بعد ہم جیپوں میں سوار ہوئے اور شوگراں کا رخ کیا۔

شوگراں

یہ سطح سمندر سے بلند مقام ہے۔ یہاں موجود چراگاہیں سیاحوں کی دلچسپی کا محور ہیں۔ ان میڈوز کی طرف راستہ جنگل سے ہو کر گزرتا ہے۔ انتہائی خوبصورت راستہ، جہاں دیودار چیڑ اور کائل وغیرہ کے درخت ملیں گے۔ یہیں سے ایک راستہ شاران فاریسٹ کی طرف جاتا ہے۔ ہم اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے۔ جنگل میں درختوں کے علاوہ انواع و اقسام کی جڑی بوٹیاں اور رنگ برنگے پھولوں کی بہتات ملے گی۔ بندر بھی مل سکتے ہیں اور دیگر جنگلی حیات سے بھی پالا پڑ سکتا ہے۔

سری پائے

دو ہزار پانچ سو فٹ کی بلندی پر موجود پائے ایک چراگاہ سمجھیں جو پہاڑ کی چوٹی پر ہے۔ یہاں رنگ برنگے پھول، سبزے کے بچھے قالین اور دھوئیں کی صورت اڑتے پھرتے بادل ان میڈوز کو خواب ناک سا بنا دیتے ہیں۔ میڈوز کو دیکھ کر بلاشبہ جنت کا گمان ہوتا ہے۔ سری پہ موجود جھیل تقریباً خشک ہو چکی ہے مگر نظارے قابل دید ہیں۔ نگاہ ٹھہرتی نہیں ہے۔ مقامی جانور یہاں وہاں چرتے نظر آتے ہیں۔

سری پہنچ کر عائشہ بھابھی نے چائے چائے کی رٹ لگا لی۔ سو وہاں ہم لوگ ایک جگہ چائے کے لیے رکے۔ پھر پائے کی طرف چڑھائی شروع ہوئی۔ پائے ہموار لش گرین گھاس کے ڈھلوانوں پر مشتمل چراگاہ ہے۔ سب نے گھڑ سواری کی اور فوٹو سیشن کیا۔ یہاں سے نکلتے نکلتے تین بج چکے تھے۔ ہم واپس کیوائی پہنچے اور گھر واپسی کا سفر شروع ہوا۔

میرا دل قدرے اداس ہوتے ہوئے شدید اداسی کی لپیٹ میں آ گیا۔ یہی خیال گزر رہا تھا ”پھر ملیں گے کبھی مگر شاید…“ پہاڑوں اور جھرنوں سے دوری کا سوچ کر ہی عجیب سی اداسی دل میں پنجے گاڑ رہی تھی۔ مغرب سے پہلے ہم مانسہرہ پہنچے۔ زور دار بارش شروع ہو گئی، جس نے گاڑی کے شیشوں کو دھندلا دیا تھا۔ بارش کے قطرے ایک ترتیب سے گرتے اور باہر سے نظر آتے دھندلے مناظر کو مزید دھندلا کرتے تھے۔ میں نے نگاہ اٹھائی تو سب خواتین و حضرات سوئے ہوئے تھے۔ حاجی صاحب کو تو جاگنا ہی تھا۔ ہمارے ٹور گائیڈ صاحبان احمد اور عبداللہ ایک دوسرے کے کندھے پر سر گرائے تھکاوٹ سے چور ہوئے پڑے تھے۔ یہی دونوں تھے جن کی وجہ سے یہ سفر اتنا حسین اور خوبصورت یادوں سے مزین ہوا تھا۔

ساتھیوں کو الوداع

صدف بھابھی، مبارک بھائی اور قمر بھائی اسلام آباد اترے۔ ہم نے ان دوستوں کو الوداع کہا جو اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوئے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میں دوبارہ سے اداس ہو چکی تھی۔ سب سے اتنی شناسائی ہو چکی تھی کہ کبھی نہ ملنے کی روح فرسا سوچ دل میں کچوکے لگا رہی تھی۔ میں نے آنکھوں کو بہ مشکل چھلکنے سے روکا۔ نہ جانے یہ خوبصورت چہرے دوبارہ دیکھنے کو ملیں یا نہیں۔ میں نے اپنا سر نشست کی پشت سے لگا کر نمکین پانی کو رخساروں سے بہنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔

تین بجے مجھے اپنے شہر پہنچنا تھا۔ گاڑی میں علی سیٹھی گونج رہا تھا، کلیاں راتاں جاگ کے اساں کٹیاں تیریاں دوریاں وے۔ گجرات پہنچ کر جیسے کوئی خواب ٹوٹا تھا مگر اپنے شہر میں قدم دھرتے ہی ایک سکون نے آ لیا۔ جیسے معصوم بچہ اپنی ماں کی آغوش میں آ کر پرسکون ہو جاتا ہے۔

خانہ بدوش کی واپسی

شام کے سائے پر پھیلانے کو تیار تھے۔ پرندوں کے شور نے سارے زمیندار کو سر پر اٹھا رکھا تھا۔ میں نے لائبریری میں قدم رکھا تو باسط صاحب نے مجھے دیکھ کر قدرے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ میں نے شرمندہ سی مسکراہٹ دکھا کر آگے بڑھی۔ دائیں طرف محترم شاعر طلباء کے گھیرے میں بیٹھے ”رنگ پر شور“ پر دستخط کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ”دو ہفتے اوپر ہو چکے ہیں مس فرح۔“ باسط صاحب نے قدرے خفگی سے کہا۔ ”میں جانتی ہوں۔ دراصل میں گجرات میں موجود نہ تھی۔ سفر سے واپس آئی تو طبیعت عجیب بوجھل سی ہو گئی تھی۔ کالج نہیں آ پائی کچھ دنوں سے۔ چار دیواری میں اب وحشت ہوتی ہے باسط بھائی۔ سونے کی کوشش کروں تو آنکھ لگتے ہی پہاڑ، دریا، جھیلیں اور جھرنے بلانے لگتے ہیں۔“ میں نے خانہ بدوش لوٹاتے ہوئے کہا تھا۔

شاعر نے ایک لحظہ کو نگاہ اٹھائی تھی اور ایک معنی خیز مسکراہٹ سے نومولود خانہ بدوش کو دیکھا تھا۔ میں نے سر جھکا کر یہ مسکراہٹ وصول کی تھی۔

مرے دل مرے مسافر

ہوا پھر سے حکم صادر

کہ وطن بدر ہوں ہم تم

دیں گلی گلی صدائيں

کریں رخ نگر نگر کا

کہ سراغ کوئى پائيں

كسى يار نامہ بر كا

ہر اک اجنبی سے پوچھیں

جو پتہ تھا اپنے گھر کا

(فیض)

یہ سفرنامہ فرح ناز محمد نے لکھا ہے۔

You can read the previous article The Lincoln Lawyer

3 thoughts on “مرے دل مرے مسافر – سفرنامۂ ناران”

  1. Back ht hi kamal likha hai ….waqai mai farah ma writing k germs mujood hain .well done farah , keep it up larki

    Reply

Leave a comment