انیک (Anek) – بھارت کے شورش زدہ علاقوں کی کہانی

انیک

بھارت کے شمال مشرق میں سات ریاستیں ایسی ہیں جنہیں سیون سسٹرز کہا جاتا ہے۔ بھارت کا ان سے رابطہ ایک مختصر راستے سے جڑا ہے جو سلگری کوریڈور یا چکن نیک کہلاتا ہے۔ ان ریاستوں میں منی پور، میزو رام، میگھالیہ، ناگالینڈ، تری پورہ، اروناچل پردیش اور آسام شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں دہائیوں سے بھارت سے علیحدگی کی مسلح تحریکیں چل رہی ہیں۔ یہاں کے باشندے خود کو بھارتی تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔

اسی موضوع پر بنائی گئی بھارتی فلم “انیک” ہے۔ یہ ہمیں شورش زدہ علاقوں میں زندگی گزارتے انسانوں کی ترجیحات، ان کے سماجی ڈھانچے کی شکست و ریخت، مطلب پرستوں کی سرمایہ کاری اور حکومت کے اصل مفادات کی ایک جھلک دکھاتی ہے۔

.

باغی تحریک کے لیڈر ٹائیگر سنگھا کو مذاکرات کی میز پر لانا حکومت کا ہدف ہے۔ اس کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی ذمہ داری ایک انڈر کور ایجنٹ امن کو سونپی جاتی ہے۔ وہ جوشوا کے نام سے اپنے مشن پر کام شروع کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ نوجوان باکسر آئڈو سے محبت کا ڈرامہ بھی کرتا ہے۔تا کہ اس کے باپ کے اصل مقاصد تک رسائی حاصل کر سکے۔ اس کا باپ جونسنز کے نام سے ایک الگ تحریک کو پروان چڑھا رہا ہے۔ بظاہر آئڈو کا باپ اسکول اور منشیات بحالی کے مراکز چلاتا ہے۔ مگر پسِ پردہ ہتھیاروں اور منشیات کا کام بھی چلتا ہے۔ آئڈو کو مگر بغاوت سے دل چسپی ہے، نہ علیحدگی پسندی سے۔ اس کا خواب عالمی سطح پر اس گیم میں بھارت کی نمائندگی کرنا ہے۔

.

امن کا تمام تر خلوص صرف اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری سے وابستہ ہے۔ لیکن دھیرے دھیرے وہ جذباتی اور عقلی طور پر الجھنے لگتا ہے۔ اسے معلوم ہوتا کہ معاملات ویسے نہیں جیسے حکومتی سطح پر دکھائےجاتے ہیں۔ علیحدگی پسندوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے کچھ گروپ خود سرکار کے بنائے ہوئے ہیں۔ انہیں اسلحہ بھی دیا جاتا ہے اور منشیات بھی۔ یعنی ایک متبادل بیانیہ خود پالیسی سازوں کا بنایا ہوا ہے۔ ٹائیگر سنگھا ہو یا سرکار، باشندوں سے کسی کو کوئی دل چسپی نہیں۔ وہ بچے جنہیں اسکول جانا چاہیئے، وہ مسلح جدوجہد میں ایندھن کے طور پر استعمال کئیے جاتے ہیں۔

ایک موقع پر امن آئڈو کو اپنی حقیقت سے کچھ نہ کچھ آگاہ کر دیتا ہے جبکہ اس کا باپ فرار ہو جاتا ہے۔ آئڈو کو بھارت کے لیے کھیلنے کا ایک موقع بھی ملتا ہے۔

فلم کی کہانی ملٹی لئیرڈ ہے اور ہمیں جموں کشمیر کا موضوع بنیادی کہانی کے متوازی دیکھنے کو ملتا ہے۔ خصوصاً امن کے باس ابرار بھٹ کے مکالمے۔ وہ خود سری نگر سے ہے اور حکومت کے معاون کے طور پر کام کرتا ہے۔ فلم کے مکالمے نہ صرف تلخ، چبھتے ہوئے اور براہ راست ہیں بلکہ سوچنے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ شناختی بحران، علاقائی تعصبات، حکومتی پالیسیاں اور امن قائم کرنے کے بجائے صرف امن معاہدے کا حصول۔

.

فلم کے کچھ مکالمے دیکھیے۔

جنگ برقرار رکھنا امن برقرار رکھنے سے کہیں آسان ہے۔

اگر بھارت کے نقشے سے ریاستوں کے نام مٹا دیئے جائیں تو کتنے لوگ نقشے پر انگلی رکھ کر درست جگہ پہچان سکتے ہیں؟

ایسا کیوں ہے کہ بھارتی ہونا کچھ لوگوں کی پہچان ہے جبکہ دیگر کو ثابت کرنا پڑتا ہے؟

کچھ بچوں کو دلی میں پڑھائی اور نوکری کا موقع ملے گا۔ وہ دلی کی زبان بولیں گے اور باقیوں کا کیا؟

انیک ایکشن سے بھرپور ہونے کے باوجود کہیں کہیں جمود کا شکار لگتی ہے۔ اختتام کو بھی روایتی حب الوطنی اور بھارت کی جیت میں لپیٹ کر دکھایا گیا ہے۔

مریم مجید ڈار کا گزشتہ تبصرہ دی سیونتھ سیل

Leave a comment