علم النحو کی کہانی – میری زبانی

علم النحو کی کہانی

کسی گاؤں میں ایک عجیب شخص رہتا تھا جس کا نام ”لفظ“ تھا۔ اس کے دو بھائی تھے۔ ایک کا نام موضوع تھا اور دوسرے کا مہمل۔

موضوع بہت ہوشیار لڑکا تھا۔ ہر چیز کا ایسا معنی بتاتا تھا جو سب کی سمجھ میں آ جاتا تھا۔ جب کہ مہمل، وہ تو پاگل تھا۔ ہر چیز الٹی بتاتا، جس کا کوئی مطلب نہ نکلتا۔

موضوع کے دو بیٹے تھے۔ ایک کا نام مفرد تھا، دوسرے کا مرکب۔ مفرد اکیلا رہتا تھا جب کہ مرکب سب کے ساتھ مل کر چلتا تھا۔

علم النحو کی کہانی

مرکب کے دو گہرے دوست تھے۔ ایک کا نام مرکب ناقص اور دوسرا مرکب تام تھا۔ مرکب ناقص بہت نالائق تھا۔ وہ ہمیشہ آدھی ادھوری بات کرتا جو کسی کی سمجھ میں نہ آتی۔ لیکن۔ مرکب تام اچھا بچہ تھا۔ اتنی صاف بات کرتا کہ پاگل بھی سمجھ جاتا۔ وہ ہر چیز کی درست خبر دیتا تھا۔ سچ جھوٹ ملا کر بات کرتا۔ اس لیے وہ خود کو وزیرِ نحو کہا کرتا تھا۔

ایک دن اچانک گاؤں میں ایک نیا لڑکا آیا، جس کا نام ”کلمہ“ تھا۔ اس کے ہمراہ تین لوگ اور بھی تھے۔ جن کے نام اسم، فعل اور حرف تھے۔

اسم بہت امیر تھا لیکن اپنے سارے کام خود کرتا تھا۔ اسے کسی سے مدد لینا پسند نہیں تھا۔ دوسری جانب فعل بخیل تھا لیکن ضرورت پڑنے پر گدھے کو باپ بنا لیتا تھا۔ وہ اکیلے نکلنے سے ڈرتا تھا مبادا کچھ غلط ہو جائے اور الزام اس کے سر آئے۔ جب کہ حرف بے چارہ تہی دست تھا۔ اس کے پاس پہننے ااوڑھنے کو نہ تھا۔ وہ اسم اور فعل سے مانگ تانگ کر گزارا کر لیا کرتا تھا۔ بسا اوقات ایسے کرتب دکھاتا کہ گاؤں والے اش اش کر اٹھتے۔

علم النحو کی کہانی

اسم بھائی کی دو بیویاں تھیں۔ اک کا نام معرفہ تھا، دوسری کا نکرہ۔ معرفہ بھابھی ہمیشہ خود کو خاص سمجھتی تھیں۔ آخر کو وہ ایک مشہور و معروف ہستی تھیں اور سب انہیں جانتے تھے۔ نکرہ بھابھی عام سی سادگی پسند خاتون تھیں۔ ان میں اتنی انکساری تھی کہ خود کو تنکے برابر بھی نہ سمجھتیں۔

معرفہ بھابھی کے سات بچے تھے، تین لڑکیاں اور چار لڑکے۔ ان کے نام ضمیر، علَم، اشارہ، موصول، معروف بالکلام، معروف بالاضافة، معروف بالنداء تھے۔

ضمیر سارا دن تو تو، میں میں کرتا رہتا۔

علَم خود کو خاص سمجھتا اور اپنے منفرد نام پر تفخر جتاتا رہتا۔ وہ ببانگِ دہل دعوتِ مبارز دیتا تھا، کون ہے جو میرے جیسا ہے۔

اشارہ دوسروں پر بلا وجہ انگلی اٹھا کر الزام تراشی کرتا رہتا۔ اس کام کے بناء اسے سکون ہی نہیں ملتا تھا۔ جب کہ وصول ہمیشہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر کام کرتا تھا۔

معروف بالکلام محترمہ اتنی نخریلی تھیں کہ ان کی وجہ سے ہمیشہ گھر میں لڑائی رہتی تھی۔ انہیں یہ ضد تھی کہ میرے ساتھ الف لام لگاؤ کیوں کہ اس میں میری جان بند ہے۔ اس کی بہن معروف بالاضافة بڑی ہوشیار لڑکی تھی۔ اپنے خاص نام کو اتنے سلیقے اپنے پسندیدہ کھانے سے جوڑتی تھی کہ کوئی اور اسے کھا نہ سکے۔ سب سے چھوٹی بہن معروف بالنداء بہت ضدی تھی۔ سب اس کے شر سے پناہ مانگتے تھے۔ وہ اعلانیہ کہتی تھی میں اپنا ہر کام خود کروں گی، کسی کو بیچ میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں۔

علم النحو کی کہانی

ندا کے دو ہم جماعت تھے۔ ایک کا نام مذکر، جب کہ دوسرے کا مونث تھا۔ مذکر میں لڑکی کی کوئی علامت نہ تھی۔ وہ کہتا، میں مرد/لڑکا ہوں۔ دوسری طرف مؤنث لڑکی بننے پر مصر تھی۔ اس کا کہنا تھا مجھے کوئی بھی لڑکا سمجھنے کی غلطی نہ کرے۔ میں بہت خطرناک لڑکی ہوں۔

مؤنث کی تین بیٹیاں تھیں۔ جن کے نام گول ة، الف مقصورہ اور الف ممدودہ تھیں۔ گول ة بہت ضدی تھی۔ وہ کہتی تھی میں خوب صورت چاند سی گول مٹول ہوں۔ میری شکل کبھی نہ بگاڑنا۔

الف ممدودہ سرو قد اور ہم درد لڑکی تھی۔ وہ کبھی ھمزہ کے بغیر باہر نہیں جاتی۔ وہ خوش گلو اور بلند آہنگ ہے۔ جب کہ الف مقصورہ سے اللہ پناہ دے۔ توبہ توبہ یہ لڑکی ھمزہ سے شدید حسد کرتی تھی۔ ساتھ چلنا تو دور کی بات ہے، اسے اپنے پاس نہیں پھٹکنے دیتی تھی۔

علم النحو کی کہانی

مؤنث کی دو سہیلیاں تھیں۔ ایک کا نام مؤنث حقیقی تھا جب کہ دوسری مؤنث لفظی تھی۔ مؤنث حقیقی ہمیشہ مرد کے ساتھ مقابلہ کرتی ہیں۔ مؤنث لفظی بہت نرم و نازک ہیں۔ وہ کم فشار خون کی مریضہ ہیں اور کمزوری کے باعث کسی کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ مونث حقیقی انہیں تنہا چھوڑ کر واحد کے گھر چلی گئی ہیں۔

واحد اکیلا رہتا تھا۔ اس کا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ واحد کے دو بھائی تھے۔ ایک کا نام تثنیہ تھا، جسے اس کے دوست مثنی بھائی کہتے تھے جب کہ دوسرا بھائی جمع تھا۔ مثنی صرف دو عدد کے ساتھ رہنے پر بضد تھا۔ اسے کسی تیسرے کا ساتھ گوارا نہیں تھا۔ جب کہ اس کا بھائی جمع سارا دن دوستوں کا مجمع لگائے رکھتا۔ کم از کم تین دوست ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتے تھے۔ جمع کے دوستوں کے جمگھٹے سے گھر والے بہت تنگ تھے۔ ایک دن بالآخر جمع بے چارے کو گھر سے نکال دیا گیا۔ وہ اپنے دوستوں جمع سالم اور جمع مکسر کے پاس چلا گیا۔

جمع سالم خدا ترس اور شریف النفس آدمی تھے۔ وہ کسی کو نہیں چھیڑتے اور خواہ مخواہ اپنی پیٹھ پر اون، این، آت کا بوجھ لاد لیتے تھے۔ دوسری جانب جمع مکسر ضدی اور شعلہ صفت تھے۔ پیسے یا کھانا نہ ملے تو گھر میں سامان کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے تھے۔ کوئی ڈانٹے تو کہتے، میں جدت پسند ہوں، نئی چیزیں بناؤں گا اور نت نئی اختراعات کروں گا۔

فہمیدہ فرید خان

Tenses: Learning Basics Of English Grammar

ملاحظہ: نحو زبان یا لسانیات کا وہ حصہ ہے جس سے جملے کی بناوٹ اور مرکبات کا علم ہوتا ہے۔ اس علم میں کسی بھی جملے میں استعمال ہونے والے مختلف الفاظ کا تعین، علم النحو کہلاتا ہے۔

1 thought on “علم النحو کی کہانی – میری زبانی”

Leave a comment