Home » Fehmiology Recounts » محاوراتی ہنگامی نگارشات

محاوراتی ہنگامی نگارشات

محاوراتی ہنگامی نگارشات

Fehmiology Recounts

0

محاوراتی ہنگامی نگارشات

میری یادگار اُردو تحریریں

Follow
User Rating: 4.16 ( 2 votes)

محاوراتی ہنگامی نگارشات

(حصہ سوم)

بہت دن سے چائے کی پیالی میں کوئی طوفان اٹھتے نہ دیکھ کر ہماری رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔ ہم نے خود ہی اپنے آپ کو للکارا۔۔۔

چل اٹھ بیٹا۔۔۔

پانی میں آگ لگاتے ہیں۔۔۔

~

بایں ہمہ ہماری دو عدد انتقامی نگارشات کامیابی کی پکی سند پا چکی تھیں۔ ہمارے پرستار ہماری نستعلیق اردو پڑھ کر انگشت بدنداں تھے اور تعریفوں کے ڈونگرے برسا رہے تھے۔ ان کی دورغ گوئی کے بمطابق زبان و بیان کا ایسا تال میل کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ حلقۂ احباب میں یکا یک ہماری ذہانت و فطانت کے ڈنکے پٹنے لگے۔

اس غیر متوقع پذیرائی نے ہمارا دل باغ باغ کر دیا۔ گویا بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ ہمیں تو ہفت اقلیم کی دولت مل گئی تھی۔ بالآخر ہم بزعمِ خود لکھاری بن چکے تھے، لہٰذا خوشیوں کے ہنڈولے جھولنے لگے۔ ہمارا تخیل آسمان کی وسعتوں میں محوِ پرواز تھا۔ اس کے پیشِ نظر شیخ چلی کے انڈوں کی ٹوکری گرنے کا احتمال پیدا ہو گیا تھا۔ قرین از قیاس تھا کہ اس کا سہرا ہمارے ہی سر بندھتا کیوں کہ ہم خود ہی اپنے تئیں شاخِ زعفراں تھے۔

ہائے ہائے یہ نیئرنگیِ خیال ہمیں کہاں کہاں نہ بھٹکا لے گئی۔ ہم خود کو مصنف مصنف سا محسوس کرنے لگے۔ یعنی وہی مثل تھی، ”سوت نہ کپاس، کولہو سے لٹھم لٹھا۔“ اس بے انت کتھاء کے محرکات کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں ہمارے حلقہ احباب کی ان قلمی موشگافیوں سے جا ملتے تھے جن کی وساطت سے ہمارے اندر اردوئے معلٰی کے سرایت کردہ جرثومے یک لخت انگڑائی لے کر بیدار ہو گئے تھے۔ ان نابغۂ روزگار ہستیوں کے زریں تعریفی فرمودات کی روشنی میں ہمارا پھول کر کپا ہونا بنتا تھا۔

~

دریں اثناء ہماری اس فقید المثال کامیابی کی بھنک خوشہ چینوں کو پڑ گئی۔ ان کے سینوں پر ناگ (سانپ) لوٹنے لگے۔۔۔ ہمارے خلاف چہ مگوئیوں کا نیا محاذ کھل گیا۔ آناً فاناً سب ہم پر یوں چڑھ دوڑے، گویا قرض خواہوں سے صدیوں پرانا حساب چکتا کروانا ہو۔ مانو ہماری کامیابی کا سارا نشہ ہرن ہو گیا۔

مخالفین کی ان کھلم کھلا چیرہ دستیوں اور مخاصمت نے ہماری آرزوؤں کامحل تاخت و تاراج کر ڈالا۔ ان کے کینچلی بدلنے پر ہم ششدر رہ گئے بلکہ شش و پنج کا شکار ہو گئے۔ آیا یہ وہی شناسا لوگ ہیں یا کہیں دوسرے سیارے سے آمد ہوئی ہے یعنی ”اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ“ والا معاملہ تھا۔ ہم نے پتہ مار کر کامیابی کے جو جھنڈے گاڑے تھے، انہوں نے اس پر انگلی اٹھا کر ہماری محنت پر پانی پھیر دیا۔

ناچ نہ جانے، آنگن ٹیڑھا۔

بلی کو چھیچھڑوں کے خواب۔

نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی۔

اس کے علاوہ بھی نا معلوم کون کون سے محاوراتی حربوں کا بے دریغ استعمال کر کے ہمیں چاروں شانے چت کرنے کی ناکام کوشش کی گئی۔ ان بڑھتی ہوئی ریشہ دوانیوں نے ہمیں چراغ پا کر ڈالا۔ ہم بھی خم ٹھونک کر دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ باطل سے ڈرنے والے نہیں تھے اے آسمان ہم۔

~

مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے ہم ایک مرتبہ پھر اردو کے بحرِ بیکراں میں غوطہ زن ہوئے۔ اپنے گنجینہ فرہنگ سے ایسے ایسے آبدار موتی چن کر لائے کہ سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ہم نے ببانگِ دہل ان کو مقابلے کی دعوت دی کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔

تو صاحبو۔۔۔

قصہ مختصر۔۔۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا کے مصداق احباب کے دیوتا کوچ کر گئے۔

حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے۔

آب ندیدہ، موزہ کشیدہ۔

آسمان سے گرا، کھجور میں اٹکا۔

آ بیل مجھے مار۔

اب پچھتائے کیا ہوت، جب چڑیاں چگ گیئں کھیت۔

اپنے پاؤں پہ کلہاڑی مارنا۔

غرضیکہ محاوراتی چومکھی لڑنے کا ایسا طومار باندھا کہ مخالفین اش اش کر اٹھے۔ اس دو بدو لڑائی نے دشمنوں کے دانت کھٹے کر دیئے تھے۔ ان کو گھٹنے ٹیک کر سِپر ڈالتے ہی بنی کیوں کہ انہیں آٹے دال کا بھاؤ خوب معلوم ہو گیا تھا۔

تحریر: فہمیدہ فرید خان

بتاریخ ۰۹ ستمبر ۲۰۱۶

تحریر: فہمیدہ فرید خان

ہنگامی نگارشات حصہ اوّل

شدید ہنگامی نگارشات حصہ دوم

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *