Home » Book & Literature Review » نولکھی کوٹھی | علی اکبر ناطق

نولکھی کوٹھی | علی اکبر ناطق

نولکھی کوٹھی | علی اکبر ناطق

تبصرہ

نولکھی کوٹھی

علی اکبر ناطق کا ناول

Follow
User Rating: 3.91 ( 5 votes)

نولکھی کوٹھی
علی اکبر ناطق

کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو آپ کی یادداشت میں بہت دیر تک محفوظ رہتی ہیں۔ نولکھی کوٹھی بھی ان میں سے ایک ہے۔ جب میں نے اسے پڑھنا شروع کیا تو آغاز ہی سے بہت اچھا تاثر بنتا گیا۔ علی اکبر ناطق نے پنجاب کی دیہی زندگی، وہاں کی بولیوں، رہن سہن اور موسم کا جاندار نقشہ کھینچا ہے۔ سب کچھ آپ کے تخیل کے پردے پر صاف نظر آئے گا۔ بعض جگہوں پر اتنی تفصیل کوفت زدہ بھی کرتی ہے۔ مگر مجموعی طور پر میں اس منظر نگاری سے بہت لطف اندوز ہوئی۔ جاڑے کا موسم، دھند میں لپٹا سبزہ، گڑ کی مہک۔ دھوپ ہے تو کھلی کھلی رات ہے تو تاروں بھری۔


نولکھی کوٹھی میں بہت سے کردار ہیں جو سب کسی نہ کسی طور ایک دوسرے سے جڑے بھی ہیں اور بالکل مختلف بھی ہیں۔ زمانہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کا ہے، جب یہاں سول سروس کا بے تاج بادشاہ انگریز تھا۔ علاقہ اوکاڑہ، ہیڈ سلیمانکی اور بارڈر پار کا ہے۔ ولیم کا کردار شروع سے آخر تک آپ کے ساتھ رہے گا۔

نولکھی کوٹھی میں ولیم اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر کے طور پر ڈیوٹی سنبھالتا ہے۔ اس دور کے افسروں کے ٹھاٹ باٹ ایسے ہیں کہ آپ سوچتے ہیں واہ نوکری ہو تو ایسی۔ غلام حیدر اپنے والد کی وفات کے بعد چودھراہٹ سنبھالتا ہے اور آتے ہی علاقائی دشمنی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سودھا سنگھ ہے جو غنڈہ گردی کو اپنی شان سمجھتا ہے۔ ایک اور کردار مولوی کرامت کا ہے جس کو قسمت ولیم سے ملوا دیتی ہے۔۔۔ اور پھر اس کی کایا ہی پلٹ جاتی ہے۔

_


نولکھی کوٹھی میں تقسیم کے دل دہلا دینے والے واقعات بھی ہیں۔ وہ مسلمان اور سکھ جو برسوں سے ساتھ تھے، ایک دوسرے کے لیے خطرہ بن گئے۔ گھروں کے آنگن میں پرسکون سونے والے ساری رات جاگ کر پہرہ داریوں میں لگ گئے۔ اپنے باپ دادا کا ملک چھوڑ کر ایک اجنبی ملک جانا پڑا۔ ساری عمر کی کمائی گئی۔ جائیداد، گھر بار چھوڑنا پڑے۔ یہ سب حالات اتنے دلگداز انداز میں بیان کیے گئے ہیں کہ آپ اس دکھ درد خوف اور بے یقینی کو شدت سے محسوس کریں گے۔

نولکھی کوٹھی میں بیان کی گئی ہجرت صرف مسلمانوں کے لیے ہی تکلیف دہ نہیں تھی۔ بلکہ ولیم جیسے لوگوں کے لیے بھی تھی۔ جو کہنے کو انگریز تھے۔ برطانوی نژاد تھے۔۔۔ مگر حقیقت میں یہیں پیدا ہوئے پل بڑھے۔ اسی زمین کو اپنا ملک مانتے تھے۔ انہوں نے یہیں رہنے کو ترجیح دی مگر تقسیم کے بعد کی زندگی ان کے لیے بہت مشکل ہو گئی تھی۔ ایک بات جس نے مجھے بہت دکھی کیا کہ ہمارے حالات اب بھی ویسے ہی ہیں، جیسے تقسیم سے پہلے تھے۔ معاملہ انصاف کا ہو، تعلیم کا یا معیارِ زندگی کا ایک عام پاکستانی کے لیے زیادہ کچھ نہیں بدلا۔ ایک جگہ ولیم کہتا ہے، ”پاکستانی افسروں سے میری مراد کلرک ہیں۔ اس خطے کے لوگ آئندہ تین سو سال تک بھی افسر نہیں بن سکتے۔” یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔

تجزیہ نگار: سدرہ جاوید

You can also read contributor’s previous Blog When Breath Becomes Air

About Sidra Javed

Sidra Javed is a home maker yet reading enthusiast. She loves reading different genres and likes to share her views with others, hoping this will inspire others to take up reading books. On the contrary she's interested in Calligraphy and Art too. She loves adding creativity and delicacy in food.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *