Home » Book & Literature Review » غدار از کرشن چندر
غدار از کرشن چندر
غدار از کرشن چندر

غدار از کرشن چندر

آہ آج میرا دل بہت بوجھل ہے۔

کتابی ذخیرے سے کرشن چندر کا ناول نکال کر پڑھنا شروع کیا

اور رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ تقسیمِ ہند کے تناظر میں لکھے گئے اس ناول کا لفظ لفظ کرب میں ڈوبا ہوا ملا۔ کرشن چندر سے میرا تعارف کب ہوا۔ اس کے لیے مجھے زیادہ متردد ہونے کی ضرورت نہیں۔ میرے بچپن کے دن تھے اور میں ابتدائی جماعتوں میں تھی جب ابا کے کتب خانے سے آشنائی ہوئی۔ ریک سے کوئی نہ کوئی کتاب ہاتھ میں لے کر صوفے پر لڑھک جانا یا ٹپائی کے ساتھ کمر ٹکا کر توڑ جوڑ کر کے پڑھنا میرا دل پسند مشغلہ تھا۔ ابا سیاست کرتے تھے تو کبھی کہیں چلے جاتے، کبھی کہیں۔ میں ان کی غیر موجودگی میں چوکیدار سے بیٹھک کا دروازہ کھلوا کر مزے سے اندر گھس جاتی تھی۔ یوں دنیا بھر کے ادیبوں کی کتابیں میں نے بچپن میں ہی چاٹ ڈالیں۔

ایک دن چھوٹی سی کتاب ہاتھ لگی۔۔۔ سوچا یہ جلدی پڑھی جائے گی۔ فوراً اٹھا کر ٹپائی گھسیٹ لی۔ وہ کتاب تھی باون پتے۔۔۔ جو پڑھ تو لی لیکن اس کتاب کو پڑھنے کی عمر نہ تھی۔۔۔ (بلکہ اس کو پڑھنے کی شاید کوئی بھی عمر ٹھیک نہیں) اس لیے شاں کر کے سر سے گزر گئی۔

خیر بات ہو رہی تھی غدار کی، جس میں ہیرو تھا بیج ناتھ، جو اونچی ذات کا برہمن تھا اور ہیروئین…. آں ایسے ناولوں میں ہیروئین کہاں ہوتی ہے بھلا۔۔۔۔۔ کہانی کے آغاز میں شاداں تھی۔ ویسے تو بیج ناتھ شادی شدہ تھا اور اس کے بچے بھی تھے مگر اس کی بیوی بھی ہیروئین نہیں تھی۔

شاداں کی کہانی بھی بس بیج ناتھ کو لاہور پہنچانے تک تھی جہاں اس کے کاروباری دوست تھے، جن میں قابل ذکر حاجی اور میاں تھے۔ جب مصیبت پڑے تو حاجی بھی پیٹھ دکھا جاتے اور میاں جیسے آزاد منش لوگ خود کو مصیبت میں ڈال کر حق دوستی نبھا جاتے ہیں۔

اس ناول سے علم ہوا کہ وطنیت بھی مذہب سے مشروط ہوتی ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں اور سکھوں کی جگہ نہیں تھی جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی تھی۔ ہندوستان میں مہاجر دیش دروہی تھے اور پاکستان میں شرنارتھی غدار تھے۔ یہ تقسیم ملکوں کی تو ہوئی ہی تھی لیکن انگریز جاتے جاتے ساتھ رہنے بسنے والوں کے دلوں میں نفرتوں کے بیج بو گیا تھا۔ بیج ناتھ کے دادا کو اپنی زمین کے زعم اور مزارعوں پر بھروسہ نے مار ڈالا، مسلمان قافلے والوں کو اسلام کے نام پر اور ہندو قافلوں کو کافر کہہ کر۔ اگر ہندؤوں کو خون بہانے کا سودا سر میں سمایا تھا تو مسلمان کیوں اپنی تعلیمات بھول گئے تھے؟؟

مسلمانوں کا خون ارزاں نہیں تھا تو سستا ہندو اور سکھوں کا بھی نہیں تھا۔۔۔ کہانی دونوں طرف ایک تھی۔۔۔ فرق بس مہاجر اور شرنارتھی کا تھا۔۔۔ لیکن نہیں، امید کی شمع تو روشن رہتی ہے۔۔۔ کبھی پاروتی کی صورت جو مقتول امتیاز کی خاطر پاکستان جا رہی تھی۔ وہاں جا کر اس نے امتیاز کی ماں کے ساتھ بیوہ بن کر زندگی گزارنا تھی۔ تابناک مستقبل کی جھلک اس وقت بھی دکھائی دے رہی تھی، جب بیج ناتھ لاشوں کے ڈھیر سے مسلمان بچے کو تحفظ دیتا ہے۔

غدار ناول پڑھ کر میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا، ”تقسیم ملکوں کی ہو تو ہو، انسانوں اور دلوں کی نہیں ہونی چاہیے۔“ یہی غدار ناول کی اساس ہے۔

تبصرہ نگار: فہمیدہ فرید خان

بتاریخ ۲۸ اگست ۲۰۱۸

#The_Fehmiology

#FFKhan

#FFK

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

2 comments

  1. Does your site have a contact page? I’m having a tough time locating it but, I’d like to shoot you an e-mail. I’ve got some suggestions for your blog you might be interested in hearing. Either way, great site and I look forward to seeing it expand over time.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *