Home » Book & Literature Review » دور کے درختوں تک از فرزانہ کھرل

دور کے درختوں تک از فرزانہ کھرل

دور کے درختوں تک از قلم فرزانہ کھرل

تبصرہ

دور کے درختوں تک

فرزانہ کھرل کا سادہ اسلوب میں لکھا گیا ناول

Follow
User Rating: 2.75 ( 5 votes)

دور کے درختوں تک (ناول)

مصنفہ: فرزانہ کھرل

تجزیہ نگار: فہمیدہ فرید خان

خواتین ڈائجسٹ اکتوبر ۲۰۲۱ء

گزشتہ کئی ہفتوں سے میں مطالعاتی جمود بھگت رہی تھی۔ ایک تواتر سے تباصر دیکھ کر پہلے جمشید بھائی کے منشور سے ایک عدد مختصر افسانہ پڑھ کر ذہن تیار کیا۔ پھر کفل بھائی کی موشگافیاں دیکھ کر دہائی دی، ”ظالمو ”دور کے درختوں تک“ ہی پڑھوا دو۔“ جس پر انعم سجیل نے حسبِ روایت حرکت میں برکت ڈال کر مجھے ناول فراہم کیا۔

جونہی ”دور کے درختوں تک“ ملا، مابدولت نے ترنت پڑھ کر انعم کا شکریہ ادا کیا۔ جواباً حیرت بھرا استفسار ہوا، ”ایں اتنی جلدی پڑھ بھی لیا؟“ میرا جواب تھا، ”ہاں تو کون سا مشکل کام ہے، بس پڑھنے والا موڈ آن ہونا چاہیئے۔“ اور انعم بی بی مجھ سے متفق تھیں۔ خیر کہانی پر آتے ہیں جسے پڑھنے کے دوران مابدولت اپنے کمرے اور نشست گاہ کے درمیان چکراتے پھر رہے تھے۔ کمرے کی صفائی جو ہو رہی تھی۔ ناول کا مرکزی خیال گو ایک رسم تھی لیکن اس پر کھل کر اظہارِ رائے نہیں کیا گیا۔ مصنفہ کی توجہ احساسات و جذبات پر زیادہ مرکوز رہی۔ اس رسم کے بارے میں مختصراً بتاتی چلوں… اس میں شادی کے بعد دلہن کے ساتھ کوئی رشتہ دار ٹھہرتی ہے۔ دلہا کو کمرے میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ شاید کبھی پڑھا یا سنا ہو لیکن سرِ دست ایسا کوئی واقعہ بالکل یاد نہیں آ رہا۔

میرے حساب سے ”دور کے درختوں تک“ کا موضوع قدرے تفصیل طلب تھا۔ اس پر صراحت سے لکھا جا سکتا تھا۔ خصوصاً شادی کے بعد ایک آدھ منظر اشد ضروری تھا۔ لیکن اس سے ناول کی پسندیدگی پر چنداں فرق نہیں پڑا۔ یہ بلاشبہ فرزانہ کھرل کے گنجلک اسلوب سے ہٹ کر لکھا گیا جاندار و شاندار ناول ہے۔

_

رمل نواز حسن: ایک زندہ دل، شوخ و چنچل لڑکی۔ مجھے یہ کردار بے حد پسند آیا۔ یعنی میرے جیسا مہم جو اور متجسس۔ فرق صرف میرا اور رمل کا ہے۔

شیران جہانگیر: یہ کردار بھی اچھا تھا۔ کفل بھائی والا نکتہ بھی قابلِ غور تھا کہ پہلے وہ بتیس کا تھا، اچانک اٹھائیس کا کیسے ہو گیا؟ اس کردار میں کافی کمی لگی مجھے۔۔۔ پر اللہ جانے کیا۔

نواز حسن کا کردار بھی کھل کر نہیں لکھا گیا۔ تاہم زرین کے تاثرات جاندار تھے۔ عادل اور عفرا کے کردار اچھے تھے۔ لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ بڈھی مائی کا مسئلہ حل ہوا یا نہیں؟

جہانگیر، حفصہ اور شانزہ کے کردار بھی ٹھیک تھے۔ شانزہ کی شوہدپائی پر بہت تپ چڑھی۔ ایک بات پر تھوڑا الجھن ہوئی کہ اپنے تئیں ماڈ بننے والی خواتین (حفصہ اور شانزہ) ان شاءاللہ اور اللہ بہتر کرے جیسے جملے کیوں بول رہی تھیں۔

_

باقر، اس کی اماں اور عنبر کے کردار بھی خوب تھے۔ خصوصاً حفصہ سے باقر کی بِستی۔ خوش لباس کے نام کی وجہ تسمیہ جان کر بہت ہنسی آئی۔ دور کے درختوں تک میں ملتے جلتے نام بہت تھے۔ جیسے بھاجی، تاجی، ناجی۔ اکبر اور پھپھو کے کردار مختصر مگر ضروری تھے۔

مجموعی طور پر دور کے درختوں تک اچھا ناول رہا۔ ہم نے مری اور جھیکا گلی کی سیر کر لی۔ جس پر مجھے اپنے مری پتریاٹہ کے سفر یاد آنے لگے۔ گجراتیوں کے ذکر کفل بھائی یاد آئے جن کی حرکتیں بعینہٖ ایسی ہی ہوتی ہیں۔

ناول کے نام کی وجہ تسمیہ کا علم ہوا تو مجھے بھی بتائیے گا۔

بتاریخ ۱۲ اکتوبر ۲۰۲۱ء

فہمیدہ فرید خان کا گزشتہ تبصرہ آبِ حیات

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *