Home » Book Reviews » دور کے درختوں تک از قلم فرزانہ کھرل
دور کے درختوں تک
دور کے درختوں تک از قلم فرزانہ کھرل

دور کے درختوں تک از قلم فرزانہ کھرل

دور کے درختوں تک

دور کے درختوں تک (ناول)

مصنفہ: فرزانہ کھرل

تجزیہ نگار: فہمیدہ فرید خان

خواتین ڈائجسٹ اکتوبر ۲۰۲۱ء

گذشتہ کئی ہفتوں سے میں مطالعاتی جمود بھگت رہی تھی جب ایک تواتر سے تباصر دیکھ کر پہلے جمشید بھائی کے منشور سے ایک عدد مختصر افسانہ پڑھ کر ذہن تیار کیا۔ پھر کفل بھائی کی موشگافیاں دیکھ کر دہائی دی، ”ظالمو ناول پڑھوا دو“ جس پر انعم سجیل نے حسبِ روایت حرکت میں برکت ڈال کر مجھے ناول فراہم کیا۔

جونہی ناول ملا، مابدولت نے ترنت پڑھ کر انعم کا شکریہ ادا کیا۔ جواباً حیرت بھرا استفسار ہوا، ”ایں اتنی جلدی پڑھ بھی لیا؟“ اور میرا جواب، ”ہاں تو کون سا مشکل کام ہے، بس پڑھنے والا موڈ آن ہونا چاہیئے“ اور انعم بی بی متفق تھیں۔

خیر کہانی پر آتے ہیں جس کو پڑھنے کے دوران مابدولت اپنے کمرے اور نشست گاہ کے درمیان چکراتے پھر رہے تھے کیونکہ صفائی ہو رہی تھی۔۔۔ دور کے درختوں تک کا مرکزی خیال گو ایک رسم تھی لیکن اس پر کھل کر اظہارِ رائے نہیں کیا گیا۔ مصنفہ کی توجہ احساسات و جذبات پر زیادہ مرکوز رہی۔ اس رسم کے بارے میں مختصراً بتاتی چلوں… اس میں شادی کے بعد دلہن کے ساتھ کوئی رشتہ دار ٹھہرتی ہے اور دلہا کو کمرے میں نہیں آنے دیا جاتا۔ شاید کبھی پڑھا یا سنا ہو لیکن سرِ دست ایسا کوئی واقعہ بالکل یاد نہیں آ رہا۔

تاہم میرے حساب سے ناول میں یہ مدعا قدرے تفصیل طلب تھا اور اس پر صراحت سے لکھا جا سکتا تھا۔۔۔ خصوصاً شادی کے بعد ایک آدھ منظر اشد ضروری تھا۔۔۔ لیکن پھر بھی اس سے ناول کی پسندیدگی پر چنداں فرق نہیں پڑا۔۔۔ یہ بلاشبہ فرزانہ جی کے گنجلک اسلوب سے ہٹ کر لکھا گیا جاندار و شاندار ناول ہے۔

رمل نواز حسن: ایک زندہ دل، شوخ و چنچل لڑکی۔۔۔ مجھے یہ کردار بے حد پسند آیا۔۔۔ یعنی میرے جیسا ایڈونچرس۔۔۔ فرق صرف عمل اور سوچ کا ہے۔

شیران جہانگیر: یہ کردار بھی اچھا تھا۔۔۔ کفل بھائی والا نکتہ بھی چبھا کہ پہلے وہ بتیس کا تھا، اچانک اٹھائیس کا کیسےہو گیا۔ ہاں اس کردار میں کافی کمی لگی مجھے۔۔۔ نجانے کیا۔

واز حسن کا کردار بھی کھل کر نہیں لکھا گیا۔۔۔ جبکہ زرین کے احساسات جاندار تھے۔ عادل اور عفرا کے کردار اچھے تھے۔۔۔ پر یہ نہیں بتایا کہ بڈھی مائی کا مسئلہ حل ہوا یا نہیں؟ جہانگیر، حفصہ اور شانزہ کے کردار بھی ٹھیک تھے۔۔۔ شانزہ کی شوہدپائی پر بہت تپ چڑھی۔۔۔ لیکن ایک بات پر تھوڑا الجھن ہوئی کہ اپنے تئیں ماڈ بننے والی خواتین (حفصہ اور شانزہ) ان شاءاللہ اور اللہ بہتر کرے جیسے جملے بول رہی تھیں۔

باقر، اس کی اماں اور عنبر کے کردار بھی خوب تھے۔۔۔ خصوصاً حفصہ سے باقر کی بستی۔۔۔ خوش لباس کے نام کی وجہ تسمیہ جان کر ہنسی آئی۔۔۔ ناول میں ملتے جلتے نام بہت تھے۔۔۔ جیسے بھاجی، تاجی، ناجی۔۔۔ اکبر اور پھپھو کے بھی کردار مختصر مگر ضروری تھے۔۔۔

مجموعی طور پر ایک دور کے درختوں تک اچھا ناول رہا۔۔۔ ہم نے مری اور جھیکا گلی کی سیر کر لی۔ جس پر مجھے اپنے مری پتریاٹہ کے سفر یاد آنے لگے۔ گجراتیوں کے ذکر کفل بھائی یاد آتے رہے جن کی حرکتیں بعینہٖ یہی ہوتی ہیں۔

بتاریخ ۱۲ اکتوبر ۲۰۲۱ء

#The_Fehmiology

#FFKhan

#FFK

About FFK

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *