Home » Current Affairs » زلزلہ ۲۰۰۵ء – یادداشتیں – حصہ اوّل

زلزلہ ۲۰۰۵ء – یادداشتیں – حصہ اوّل

زلزلہ ۲۰۰۵

زلزلہ

زلزلہ ۲۰۰۵ء - یادداشتیں - حصہ اوّل

۲۰۰۵ کے زلزلے کی یادداشتیں

Follow
User Rating: 3.64 ( 5 votes)

زلزلہ ۲۰۰۵ء

ویسے تو میری زندگی بے شمار عجیب و غریب واقعات سے عبارت ہے۔ لیکن کچھ لمحات ذہن پر یوں نقش ہیں کہ مٹائے نہیں مٹتے۔ انہی میں سے ایک ۲۰۰۵ کا زلزلہ بھی ہے۔ میری حالت کے تناظر میں ایک سوال تواتر سے پوچھا جاتا رہا ہے۔ جس وقت زلزلہ آیا، آپ کہاں تھیں؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے مجھے پیچھے جانا پڑے گا۔

~

مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ اگست کے مہینے سے مجھے ڈراؤنے خواب و خیال آنے لگے تھے۔ یہ کیفیت صرف سوتے میں نہیں بلکہ جاگتے میں بھی آن وارد ہوتی تھی، حتیٰ کہ نماز کے دوران بھی۔ خصوصاً سجدے میں یہ کیفیت شدت سے حملہ آور ہوتی تھی۔ یہ تخیلات بے انتہا صاف، واضح اور بے انتہاء خوفزدہ کر دینے والے ہوتے تھے۔ نیند کے دوران چیختی ہوئی اٹھ جاتی تھی اور اکثر نماز ادھوری چھوڑ کر بھاگ جاتی تھی۔ میں اس کیفیت تو کو محسوس کر سکتی تھی لیکن الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر تھی۔ سب پوچھتے تھے کیا محسوس ہو رہا ہے؟ مگر میں بتا نہیں پاتی تھی۔

یہ واقعات میری نگاہوں کے سامنے پورے سیاق و سباق اور تسلسل کے ساتھ آتے تھے۔ میں سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ آخر یہ کیا ہے؟ میرا دھیان زیادہ سے زیادہ ایٹمی جنگ کی طرف جاتا تھا۔ تاہم حالات کچھ اور رخ دکھا رہے تھے۔ تباہی و بربادی کے مناظر اور لوگوں کی آه و بکا کی کہانی مختلف تھی۔ ہمارے گھر کے پیچھے ایک کھلا میدان تھا۔ میں دیکھتی تھی سب محلے والے پریشانی کے عالم میں وہاں بیٹھے ہیں۔ یہ باتیں سمجھ میں آنے والی تھیں، نہ ان کا محرک سمجھ نہیں آتا تھا۔ ذہن میں زلزلہ تھا ہی نہیں۔

~

بالآخر اکتوبر کا مہینہ آن پہنچا۔ عجیب سی بے چینی اور اضطراب تھا جو کسی طور کم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ چھ اکتوبر کو رمضان کا آغاز بھی اسی حالت میں ہوا۔ سست رفتاری سے رینگ رینگ کر بہ مشکل دو روزے پورے ہوئے۔ رمضان کی مخصوص رونق اور روایتی چہل پہل مفقود تھی۔ رمضان بجھا بجھا سا تھا۔

تیسرے دن کا آغاز عجیب ہیبت ناک واقعے سے ہوا۔ ہر طرف ہوکا کا عالم تھا۔ پرندے بھی دم سادھے تھے۔ کوئی چہچہاہٹ نہ تھی۔ سیانے کہتے ہیں کسی آفت کے آنے کی خبر سب سے پہلے جانوروں کو ہوتی ہے اور یہ شاید سچ ہے۔ یہاں میں یہ وضاحت کرتی چلوں کہ میں روزے نہیں رکھتی۔

آٹھ اکتوبر ۲۰۰۵ء بروز ہفتہ، یعنی تین رمضان المبارک کو میں اپنے معمول کے مطابق دیر سے جاگی۔ باقی سب سحری کے بعد سو رہے تھے۔ میں نے منہ ہاتھ دھویا، برش کیا اور باورچی خانے کی راہ لی۔ (ان دنوں میں اپنا ناشتہ خود بنا لیا کرتی تھی۔) ناشتہ کے لوازمات نکال کر چائے کے لیے فرج سے دودھ نکالا تو وہ خراب تھا۔ دودھ کا برتن باہر ہی چھوڑ کر پراٹھے کا پیڑہ اور آملیٹ کا آمیزہ واپس فرج میں رکھا اور والدہ کو جا کر دودھ پھٹنے کی اطلاع دی۔ انہوں نے نیم وا آنکھوں سے تسلی دی کہ تھوڑی دیر میں دکان سے تازہ دودھ لا دیں گی۔ پھر بے دھیانی میں فرشی بستر سے اٹھ کر پلنگ پر لیٹ گئیں۔ مجھے بھوک محسوس نہیں ہو رہی تھی تو سوچا اچھا ہے وہ تھوڑی دیر مزید سو لیں۔

~

میں دودھ کے انتظار میں واپس اپنے بستر پر بیٹھ گئی۔ تب میں عموماً سوچوں میں گم رہا کرتی تھی۔ اسی وجہ سے مجھے سب علامہ اقبال کہہ کر چھیڑا کرتے تھے۔ لیکن اس روز ذہن پراگندہ تھا۔ بھٹکتی سوچیں کسی جگہ مرتکز نہیں ہو پا رہی تھیں۔ حتٰی اس وقت مخصوص پریشان کن خیالات بھی عنقا تھے جنہوں نے کئی ماہ سے میرا جینا حرام کر رکھا تھا۔

ٹھیک آٹھ بج کر باون منٹ پر اچانک ایک دهماکے سی آواز آئی۔ ساتھ ہی تڑخ تڑخ کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں جیسے زمین پھٹ رہی ہو۔ ہر چیز زیر و زبر ہونے لگی تھی۔ میں نے فوراً کلمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ پہلا خیال قیامت کا آیا تھا۔ دوسرا خیال تھا نہیں نہیں، قیامت جمعہ کو آئے گی، آج تو ہفتہ ہے۔ دس سیکنڈ کے بعد طوفان کچھ تھما تو میں نے اپنے آپ کو والدہ کو آوازیں دیتے پایا۔ ممی جلدی اٹھیں، باہر نکلیں۔ جھٹکے اس قدر شدید تھے کہ وہ اٹھنے کی کوشش میں اچھل کر دوبارہ پلنگ پر گر جاتی تھیں۔

جس جگہ وہ پہلے لیٹی ہوئی تھیں، عین اسی جگہ سیف والی لوہے کی مضبوط الماری گری تو میری حسیات یک دم بیدار ہو گئیں۔ مانو جیسے کوئی گرہ کھل گئی ہو۔ میرا دماغ پوری طرح متحرک ہو گیا اور میں نے آناً فاناً باہر دوڑ لگا دی۔ نشست گاہ سے نکلتے ہوئے میری نظر ٹی وی پر نظر پڑی۔ وہ یوں گر رہا تھا گویا پرنٹر میں سے صفحہ نکل رہا ہو۔ راہداری میں نصب قد آدم آئینہ کرچی کرچی ہو چکا تھا۔ عام حالات میں مجھے کوئی ذرا زور سے بھی پکڑ لے تو نیل پڑ جاتے ہیں۔ اس دن میں شیشے کی کرچیوں سے گذر کر مرکزی دروازے تک پہنچ گئی اور معجزانہ طور پر خراش تک نہ آئی۔

~

جھٹکے مسلسل آ رہے تھے۔ زلزلہ کبھی تیز اور کبھی بہت تیز ہوتا۔ لیکن گڑگڑاہٹ تھم چکی تھی۔ میں سڑک پر نکلنے کو تھی جب ہنی نے آواز دی، وہیں رکو میں وہیل چیئر لے کر آ رہا ہوں۔ والدہ اور چھوٹی بہن اپنی بیٹی کو اٹھائے گرتی پڑتی چلی آ رہی تھیں۔ پیچھے بڑی بہن، ان کی نند اور بہنوئی بیٹی کو اٹھائے نکلتے دکھائی دیئے۔ وہ اوپری منزل پر رہائش پذیر تھے۔ بقول باجی کے، انہیں صرف یہ یاد تھا کمرے سے نکل کر پہلے زینے پر قدم رکھا تھا اور بیرونی دروازے سے نکل آئےجب کہ سیڑھیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ بیچ کا منظر ان کی یادداشت سے محو تھا۔

باہر نکل کر دیکھا تو اردگرد کی ساری عمارتیں منہدم ہو چکی تو دیکھا اردگرد کی ساری عمارات منہدم ہو چکی تھیں۔ خصوصاً سرکاری عمارتوں کا نام و نشان تک نہ تھا۔ رہائشی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا تھا، مگر ان میں سے بیشتر اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے تھیں۔ ہم سب سامنے والوں کے صحن میں جا بیٹھے جو قدرے کنارے پہ تھا۔ طوفان تباہی کے نشانات ثبت کرنے کے بعد بھی وقفے وقفے سے اپنا زور دکھاتا تھا۔ جب بیچ میں زوردار جھٹکے آتے تو گھر والے میری وہیل چیئر مضبوطی سے پکڑ لیتے تھے تاکہ میں گر نہ جاؤں۔

~

جب زلزلہ آیا تو ابا عدالت میں تھے۔ ان سمیت تین وکلاء اپنی پیشی کے انتظار میں برآمدے میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ جونہی گڑگڑاہٹ ہوئی، تینوں احاطے میں چلے گئے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت کی عمارت زمیں بوس ہو گئی۔ امدادی کارروائیاں شروع ہونے سے پہلے وہ پیدل گھر آئے تھے۔ راستے میں ہونے والی بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھ کر انہیں یقین ہو چلا تھا ہم شاید زندہ نہ ہوں۔

تحریر: فہمیدہ فرید خان

گزشتہ تحریر بھی پڑھیئے گدی نشین ملکۂ عالیہ

About Fehmeeda Farid Khan

A freelancer, blogger, content writer, translator, tour consultant, proofreader, environmentalist, social mobilizer, poetess and novelist. As a physically challenged person, she extends advocacy on disability related issues. She's masters in Economics and Linguistics along with B.Ed.

9 comments

  1. اوہ فہمی ۔۔ اللہ نے امان میں رکھا۔۔ ہاں وہ بہت ہی خوفناک اور بہت ہی دردناک وقت تھا ۔ہم سب کے لیے اور خاص طور پر آپ سب جو بری طرح متاثر ہوئے۔۔۔۔۔لیکن یہ یاداشت ادھوری ہے۔۔۔

    • جی بہت مشکل وقت تھا، جو ہم نے دیکھا۔
      بقیہ یادداشت بھی شائع کر دی گئی ہے۔

  2. Simply wish to say your article is as amazing. The clarity in your post is just excellent and i can assume you are an expert
    on this subject. Fine with your permission let me to grab your RSS feed to keep up to date with forthcoming post.
    Thanks a million and please keep up the gratifying work.

  3. It’s hard to come by educated people in this particular subject, however, you sound like you know what you’re talking
    about! Thanks

  4. Definitely believe that that you stated. Your favourite justification seemed to be at the internet the simplest
    factor to have in mind of. I say to you, I certainly get irked at the same time
    as other folks consider concerns that they plainly don’t understand about.

    You managed to hit the nail upon the highest as neatly as defined out the entire thing with no need side effect , other people
    can take a signal. Will likely be back to get more.
    Thank you

  5. Fantastic website you have here but I was wanting to know if you knew of any community forums that cover the same topics talked
    about here? I’d really love to be a part of group where I can get feed-back from other knowledgeable people that share the same interest. If you have any recommendations, please let me know. Cheers!

  6. Wow, fantastic blog structure! How long have you ever been running a blog for?
    you make running a blog look easy. The whole look of your site is wonderful, as neatly as the content.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *